[go: up one dir, main page]

مندرجات کا رخ کریں

واہمہ

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

واہمہ جمع واہمات(Hallucination)، ایک ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان کی کوئی ایک یا تمام حسیں خطا یا غلطیاں کرتی ہیں اور اپنا فعل درست نہیں ادا کرپاتیں۔ بلا کسی بیرونی محرک کے ہی دماغ میں اس محرک (مثلا آواز یا بو وغیرہ) کا احساس اجاگر ہوجاتا ہے، جیسے غیر موجود کو دیکھنا، کسی کے بولے بغیر ہی آواز و گفتار کو سننا، کسی بو کے نہ ہونے کے باوجود اس بو کو سونگھنا وغیرہ وغیرہ۔ یہ سب دماغ و اعصاب میں مختلف اقسام کے نقص کی بنا پر ہوتا ہے اور اس کو نفسیات میں ایک شدید ذھانی کیفیت یا مرض کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔

واہمہ کی کیفیت یا نفسیاتی مرض، فریب حس سے بالکل الگ چیز ہے، فریب حس میں بھی حسیں درست افعال ادا نہیں کر پاتیں مگر اس میں کوئی بیرونی محرک ضرور موجود ہوتا ہے اور وہ حس اس کو غلط طور پر محسوس کرتی ہے یا یوں کہ لیں کہ فریب یا دھوکا کھا جاتی ہے۔ اس کی ایک مثال صحرا میں سراب کو دیکھنا ہے جس میں ایک بیرونی محرک یعنی روشنی کی موجیں موجود تو ہوتی ہیں لیکن نظر کی حس ان سے دھوکا کھا کر ریت کو پانی کے طور پر پیش کرتی ہے، فریب حس کو عام طور پر فریب نظر بھی کہا جاتا ہے۔

ہوتا کیا ہے؟

[ترمیم]

واہمہ ایک ایسی کیفیت ہے کہ جو متعدد اقسام کی نفسیاتی بیماریوں میں پیدا ہو سکتی ہے اور اس کی حامل شخصیت (یا مریض) اسے اپنی حس کی خطا نہیں سمجھتا بلکہ وہ اس کو ایک حقیقی بات کے طور پر دیکھتا ہے اور اس پر ایسے ہی یقین کر سکتا ہے کہ جیسے کوئی عام انسان اپنا نام پکارے جانے پر یہ کہے کہ مجھے کسی نے پکارا ہے۔ گویا یوں کہہ سکتے ہیں کہ حالتِ بیداری و شعور کے دوران میں پیدا ہونے والی ایسی حسی ادراک کا احساس جس کے لیے کوئی بیرونی موجب موجود نہ ہو اور اس آگاہی میں ملوث ہونے والی حس اپنی کیفیت اور اپنی مقدار میں حقیقت کے جیسی ہو تو وہ متاثرہ شخص کو مکمل دھوکا دے کر اپنے واقعی ہونے کا یقین دلا سکتی ہے۔ یہ کیفیت جیسا کہ ابتدائی میں ذکر آیا کہ فریب حس سے مختلف ہوتی ہے اور اسی طرح خواب کی کیفیت سے بھی مختلف ہے کہ حالت خواب اس کیفیت کو کہتے ہیں کہ جب کوئی حس ایسے وقت بیدار ہو جب وہ متاثرہ شخص بیداری و شعور کی حالت میں نہیں ہو۔ واہمہ کے بارے میں ایک اور اہم بات یہ ہے کہ جیسا کہ اوپر بیان ہوا اس میں بیدار ہونے والی حس؛ واضح، مغبوط (vivid) اور اپنی مقدار اور کیفیت میں معقول (substantial) ہونے کے ساتھ ساتھ بیرونی متجرّد فضاء (external objective space) میں واقع یا شروع ہونے والی محسوس ہوتی ہے۔

بیرونی متجرّد فضاء

[ترمیم]

بیرونی متجرّد فضاء میں واقع ہونے کا تصور یا احساس اصل میں اس بات کی نشان دہی کرتا ہے کہ اس متاثرہ شخص کو متعلقہ واہمہ کا احساس کسی بیرونی محرک (منبہ) کی وجہ سے پیدا ہوتا ہوا محسوس ہوتا ہے؛ متجرّد کا لفظ یہاں موضوعی کے معنوں میں آتا ہے جس سے مراد اپنی (یا متعلقہ شخصیت کی) ذات سے الگ شے یا موضوع یا کیفیت کی ہوتی ہے۔ بیرونی متجرّد فضاء کے برعکس علم نفسیات میں ایک اور تصور پایا جاتا ہے جس میں کوئی محسوس ہونے والی کیفیت (یعنی حس) بیرونی فضاء کی بجائے اس شخص کی ذات میں ہی شروع یا واقع ہوتی ہوئی محسوس ہوتی ہے؛ جیسے کوئی مریض کہے کہ

  • جب وہ اکیلا ہو تو کوئی اس سے باتیں کرتا ہے یا کوئی اس کا نام پکارتا ہے۔
  • مجھے ایسا لگتا ہے کہ جیسے کوئی میرے دماغ کے اندر باتیں کر رہا ہو۔

بیان اول الذکر میں متجرّد یا موضوعی فضاء اپنے مقام پر بیرونی تصور کی جاتی ہے جبکہ بیان بعد الذکر میں اس موضوعی فضاء کو اندرونی سمجھا جاتا ہے۔ اور یہ کیفیت کہ جب مریض کے لیے بیرونی متجرّد فضاء کی صورت ناپید ہو اور وہ آوازیں (یا جو بھی حس ہو) وہ اس کو اپنے اندر ہی پیدا ہوتی محسوس ہوں تو اسے کاذب واہمہ (pseudohallucination) کہا جاتا ہے۔ کاذب واہمہ کو یوں بھی بیان کیا جا سکتا ہے کہ، اس خطا میں اصل یا حقیقی حسی ادراک سے مشابہت کم ہوتی ہے اور یہ بات قابل ذکر ہے کہ متعدد نفسیاتی و طبی نصابی کتب میں کاذب واہمہ کی اصطلاح اس قدر کثرت سے استعمال میں دیکھنے میں نہیں آتی اور بعض ماہرین نفسیات اس کے لیے غیر ذھانی واہمہ (nonpsychotic hallucination) کی اصطلاح بھی تجویز کرتے ہیں۔۔[1]

تفریقی تشخیص

[ترمیم]

ماہرین علم نفسیات و طب کے لیے واہمہ کی درست تفریقی تشخیص مریض کے علاج و معالجے میں ایک ابتدائی اور نہایت اہم مرحلہ ہوتا ہے۔ وہ کیفیات کہ جن کو واہمہ کی کیفیت سے الگ کرنا یعنی تفریق کرنا ضروری ہوتا ہے متعدد ہیں؛ جس میں فریب حس، خواب، کاذب واہمہ اور اختباطی آگہی (delusional perceptions) وغیرہ قابل ذکر ہیں۔ مثال کے طور پر کاذب واہمہ کی کیفیت سے اگر درست طور پر واہمہ (ایک شدید ذھانی مرض) کو الگ نا کیا گیا تو اس کا نتیجہ غیر ضروری اور مضر ادویات کے استعمال کی صورت میں ظاہر ہو سکتا ہے؛ یعنی کاذب واہمہ کو عام طور پر ماہرین نفسیات غیر ذھانی کیفیت میں شمار کرتے ہیں اور اس کے لیے کی جانے والی نگرانی یا علاج خطائے حس سے مختلف بھی ہو سکتا ہے۔ اس قسم کی تفریقی تشخیص میں طبیب کی مریض سے گفتگو اور اس کا امتحان نہایت بنیادی کردار ادا کرتا ہے؛ جیسے اگر مریض کسی حس کی حسی ادراک کو بیان کرے تو پہلا سوال یہ آتا ہے کہ آیا اس کے لیے کوئی بیرونی متجرد فضاء ہے کہ نہیں؟ اگر اس کا جواب نہیں میں ملے تو یہ کاذب واہمہ کی جانب اشارہ ہے؛ اور اس کے بعد دوسرا اہم سوال یہ آتا ہے کہ آیا اس حس سے آگاہی حاصل ہونے کے وقت وہ مریض کسی بھی قسم کی (انتہائی معمولی ہی کیوں نہ ہو) شعوری حالت رکھتا تھا کہ نہیں؟ اور اس بات کا بھی جواب نہیں میں ملے تو پھر اس واہمہ کو واہمہ نہیں بلکہ محض خواب کی کیفیت کی حیثیت سے بھی دیکھا جا سکتا ہے اور یا پھر اختباطی آگاہی کی کیفیت کے طور پر تحقیق کی جا سکتی ہے۔[2]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. Pseudohallucinations: a pseudoconcep? A review of the validity of the concept, related to associate symptomatology van der Zwaard R, Polak MA. Compr Psychiatry۔ 2001 Jan-Fab;42(1):42-50
  2. Differential Diagnosis and Management of Hallucinations. Leo P.W. Chiu (PDF) Journal of the Hong Kong Medical Association. Vol 41, No. 3. 1989