سلطنت عثمانیہ کا عروج
خلافت عثمانیہ کی تاریخ |
---|
عروج (1299ء – 1453ء) |
توسیع (1453ء – 1683ء) |
جمود (1683ء – 1827ء) |
زوال (1828ء – 1908ء) |
خاتمہ (1908ء – 1922ء) |
مزید دیکھئے: |
فتح قسطنطنیہ |
دور لالہ |
دور تنظیمات |
پہلا آئینی دور |
دوسرا آئینی دور |
یورپ میں جنگیں |
روس کے خلاف جنگیں |
مشرق وسطی میں جنگیں |
13 ویں صدی کے اواخر میں سلجوقی سلطنت ختم ہوئی اور اناطولیہ مختلف چھوٹی چھوٹی ریاستوں میں تقسیم ہو گیا۔ اس میں سے ایک سغوط کی ریاست تھی جہاں اسی نام کا ایک قبیلہ رہائش پزیر تھا۔ اس ریاست کا بانی اور قبیلے کا سردار ارطغرل تھا۔ 1281ء میں ارطغرل کے انتقال کے بعد اس کے صاحبزادے عثمان اول کو سردار بنایا گیا۔ یہی عثمان اول سلطنت عثمانیہ کا بانی تھا۔
دور کی خصوصیات
[ترمیم]سلاجقہ روم کی سلطنت کے خاتمے کے بعد اناطولیہ میں طوائف الملوکی پھیل گئی اور مختلف سردار اپنی اپنی خود مختار ریاستیں بنا کر بیٹھ گئے جنہیں غازی امارات کہا جاتا تھا۔ 1300ء تک زوال کی جانب گامزن بازنطینی سلطنت اناطولیہ میں واقع اپنے بیشتر صوبے ان غازی امارتوں کے ہاتھوں گنوا بیٹھی۔ انہی امارتوں میں سے ایک مغربی اناطولیہ میں اسکی شہر کے علاقے میں واقع تھی جس کے سردار عثمان اول تھے۔ کہا جاتا ہے کہ جب ارطغرل ہجرت کر کے اناطولیہ پہنچے تو انھوں نے دو لشکروں کو آپس میں بر سر پیکار دیکھا جن میں سے ایک تعداد میں زیادہ اور دوسرا کم تھا اور اپنی فطری ہمدردانہ طبیعت کے باعث ارطغرل نے چھوٹے لشکر کا ساتھ دیا اور 400 شہسواروں کے ساتھ میدان جنگ میں کود پڑے۔ اور شکست کے قریب پہنچنے والا لشکر اس اچانک امداد سے جنگ کا پانسا پلٹنے میں کامیاب ہو گیا۔ ارطغرل نے جس فوج کی مدد کی وہ دراصل سلاجقہ روم کا لشکر تھا جو مسیحیوں سے بر سر پیکار تھا اور اس فتح کے لیے ارطغرل کی خدمات کے پیش نظر انھیں اس کی شہر کے قریب ایک جاگیر عطا کی۔ 1281ء میں ارطغرل کی وفات کے بعد اس جاگیر کی سربراہی عثمان اول کے ہاتھ میں آئی جنھوں نے 1299ء میں سلجوقی سلطنت سے خود مختاری کا اعلان کر کے عثمانی سلطنت کی بنیاد ڈالی۔ عثمان اول نے اس چھوٹی سی سلطنت کی سرحدیں بازنطینی سلطنت کی سرحدوں تک پھیلا دیں اور فتح کے بعد دار الحکومت بروصہ منتقل کر دیا۔ عثمان اول ترکوں میں انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔ درحقیقت وہ بہت ہی اعلٰی اوصاف کے حامل تھے۔ دن کے مجاہد اور رات کے عابد کے ساتھ ساتھ انتہائی شریف النفس، سادگی پسند، مہمان نواز، فیاض اور رحم دل انسان بھی تھے۔ ان کا دور حکومت سلطنت عثمانیہ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا سبب بنا۔ یہ عثمان اول کی ڈالی گئی مضبوط بنیادی ہی تھیں کہ ان کے انتقال کے بعد ایک صدی کے اندر عثمانی سلطنت مشرقی بحیرہ روم اور بلقان تک پھیل گئی۔
سلطنت کی فتوحات کا یہ عظیم سلسلہ عثمان کے جانشینوں نے جاری رکھا لیکن 1402ء میں تیمور لنگ نے اناطولیہ پر حملہ کر دیا اور عثمانی سلطان بایزید یلدرم شکست کھانے کے بعد گرفتار ہو گیا لیکن یہ عثمانیوں کی اولو العزمی تھی کہ انھوں نے اپنی ختم ہوتی ہوئی سلطنت کو نہ صرف بحال کیا بلکہ چند ہی عشروں میں فتح قسطنطنیہ جیسی تاریخ کی عظیم ترین فتح حاصل کی۔ اس سے عثمانیوں کا وقار دنیا بھر میں بلند ہوا۔ سلطنت عثمانیہ کی دوبارہ بحالی کا سہرا بایزید یلدرم کے بیٹے محمد اول کے سر جاتا ہے جو اپنے اعلٰی اخلاق و اوصاف کے باعث ترکوں میں "محمد چلبی" کے نام سے جانے جاتے ہیں۔ فتح قسطنطنیہ ترکوں خصوصاً عثمانیوں کی تاریخ کا سنہرا ترین باب ہے۔ 29 مئی 1453ء میں 21 سالہ نوجوان سلطان محمد ثانی کی زیر قیادت اس لشکر نے محیر العقول کارنامے انجام دیتے ہوئے اس عظیم شہر کو فتح کیا اور اسے اپنا دار الحکومت بنایا۔ اس طرح محمد قیصر روم بن گیا اور یہ لقب اس کے ان ارادوں کو ظاہر کرتا تھا کہ عثمانی جلد روم پر بھی قبضہ کر لیں گے اور انہی مقاصد کے حصول کے لیے 1480ء میں عثمانی افواج جزیرہ نما اطالیہ پر اتریں اور اوٹرانٹو اور اپولیا کے شہروں پر قبضہ کر لیا لیکن 1481ء میں محمد فاتح کی وفات کے ساتھ ہی فتح اطالیہ کی مہم کا خاتمہ ہو گیا۔
سلاطین
[ترمیم]عثمان اول
[ترمیم]1299ء میں بازنطینی سلطنت کا شہر بلیچک عثمان اول کے ہاتھوں فتح ہوا اور یہ 1300ء اور 1310ء کی دہائی میں عثمانی ترکوں کے ہاتھوں فتح ہونے والے کئی شہروں اور قصبوں میں سے ایک تھا۔ عثمان نے قریبی ترک امارات اور قبیلوں کے خلاف بھی فتوحات حاصل کیں اور انھیں اپنی ریاست میں شامل کر لیا۔ 1310ء کی دہائی کے اواخر میں عثمان اول نے اہم بازنطینی قلعوں کا محاصرہ کیا۔ ان میں ینی شہر فتح ہوا اسے اناطولیہ میں بازنطینیوں کے بڑے شہروں بروصہ اور نیسیا (ازنک) پر فتوحات کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ بروصہ 1326ء میں عثمان کے انتقال سے کچھ عرصہ قبل فتح ہوا۔
اورخان اول
[ترمیم]عثمان کے بیٹے اورخان اول نے 1331ء میں نیسیا اور 1337ء میں نکومیڈیا پر قبضہ کیا اور بروصہ کو دار الحکومت قرار دیا۔ اورخان کے دور حکومت میں عثمانی سلطنت ایک منظم ریاست کی صورت میں ابھرا جس میں جدید کرنسی، نظام حکومت اور نئی منظم فوج شامل تھی۔ اورخان کے دور حکومت میں عثمانی پہلی مرتبہ یورپ میں داخل ہوئے اور انھوں نے درہ دانیال کے کنارے پر واقع گیلی پولی کا شہر فتح کیا۔ اورخان کا انتقال 1360ء میں ہوا اور اس نے اپنے جانشیں اور بیٹے مراد اول کے لیے ایک ابھرتی ہوئی سلطنت چھوڑی
مراد اول
[ترمیم]1360ء کی دہائی میں عثمانیوں نے گیلی پولی سے آگے تھریس کی جانب قدم بڑھائے اور ادرنہ (ایڈریانوپل) اور فلپوپولس (پلوفڈف) کو فتح کر لیا اور بازنطینیوں کو خراج دینے پر مجبور کیا۔ ان کے دور حکومت میں مسیحیوں نے متحد ہوکر عثمانیوں کے خلاف صلیبی جنگ لڑی تاہم مراد کو شکست نہ دے سکے۔ انہی کے دور حکومت میں بلغاریہ فتح ہوا۔ 1383ء میں مراد نے خود کو عثمانی سلطنت کا سلطان قرار دیا۔ 1385ء میں صوفیہ اور اگلے سال نیس فتح ہوا۔ 1387ء میں سربوں نے عثمانی فتوحات کو روکا لیکن دو سال بعد جنگ کوسوو میں عثمانیوں نے عظیم فتح حاصل کی لیکن اس جنگ میں سلطان مراد شہید ہو گیا۔
بایزید اول
[ترمیم]سلطان مراد کا ہونہار بیٹا بایزید تخت پر بیٹھا جو دوران جنگ اپنی تیزی کے باعث یلدرم یعنی بجلی کہلاتا تھا۔ بایزید نے اپنے دور حکومت میں بلغاریہ کا بیشتر حصہ اور شمالی یونان فتح کیا اور 1391ء تا 1398ء قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا۔ 25 ستمبر 1396ء کو اس نے جنگ نکوپولس میں مسیحیوں کی مشترکہ فوج کو زبردست شکست دی۔ اس نے 1397ء میں سلطنت کے مشرقی حصے میں کرہ مان کی امارت کو فتح کیا۔ 1400ء میں تیمور لنگ مشرق وسطی میں داخل ہوا اور اس نے مشرقی اناطولیہ پر حملہ کر دیا۔ جولائی 1402ء میں انقرہ کے قریب بایزید اور امیر تیمور کا ٹکراؤ ہوا جس میں تیمور کو فتح حاصل ہوئی اور بایزید گرفتار ہوا۔ اس کا دوران قید 1403ء میں انتقال ہوا۔ (دیکھیے: جنگ انقرہ)
زمان تعطل حکمرانی
[ترمیم]انقرہ کی شکست کے بعد سلطنت میں انتشار پھیل گیا۔ منگولوں کو اناطولیہ میں پیش قدمی کا موقع مل گیا اور سلطان کی سیاسی قوت کا خاتمہ ہو گیا۔ بایزید کی گرفتاری کے بعد اس کے بیٹوں سلمان چلبی، عیسی چلبی، محمد چلبی اور موسی کے درمیان جنگ چھڑ گئی جس میں محمد اول المعروف محمد چلبی نے فتح حاصل کی۔
محمد اول
[ترمیم]محمد اول 1413ء میں ادرنہ میں تخت نشین ہوا۔ اس کا مقصد سلطنت کو اس کی ماضی کی عظمتیں لوٹانا تھا۔ اپنے 8 سالہ دور حکومت میں محمد نے زبردست کارنامے انجام دیے۔ دار الحکومت کو بروصہ سے ادرنہ منتقل کیا، بلغاریہ اور سربیا پر قبضے کو مضبوط کیا، منگولوں کو اناطولیہ سے نکال باہر کیا اور البانیہ، سلیسیہ، ترک امارتوں اور جنوبی یونان پر حملے کیے۔ 1421ء میں وفات کے بعد اس کا بیٹا مراد دوم تخت پر بیٹھا۔
مراد دوم
[ترمیم]مراد دوم کا دور حکومت بلقان اور اناطولیہ میں زبردست جنگوں کا دور تھا جس میں انھوں نے شاندار فتوحات حاصل کیں۔ انھوں نے اپنے والد محمد اول کی وفات پر محض 18 سالہ کی عمر میں تخت سنبھالا۔ ان کو سب سے پہلے بغاوتوں کا سامنا رہا تاہم وہ انھیں فرو کرنے میں کامیاب رہے۔ انھوں نے 1421ء میں قسطنطنیہ کا محاصرہ کیا لیکن اپنے بھائی مصطفی کی جانب سے بروصہ پر حملے کی وجہ سے انھیں یہ محاصرہ اٹھانا پڑا اور انھوں نے بروصہ پہنچ کر مصطفی کو شکست دی اور اسے قتل کر دیا۔ مصطفی کو بغاوت پر آمادہ کرنے والی اناطولیہ میں پھیلی ترک ریاستوں کو ان کے کیے کی سزا ملی اور مراد دوم نے سب کو شکست دے کر سلطنت میں شامل کر لیا۔ مراد نے بلقان میں وسیع علاقہ سلطنت میں شامل کیا اور 1439ء میں سربیا فتح کیا۔ 1441ء میں مقدس رومی سلطنت، پولینڈ اور البانیہ نے ان کے خلاف اتحاد قائم کرتے ہوئے صلیبی جنگ کا اعلان کر دیا۔ 1444ء میں جنگ وارنا میں انھوں نے یوناس ہونیاڈے کو شکست دی لیکن جنگ جلاووز میں انھیں شکست ہوئی اور دونوں کے درمیان معاہدہ ہو گیا۔ اس معاہدے کے بعد مراد دوم اپنے صاحبزادے محمد دوم کے حق میں تخت سے دستبردار ہو گئے لیکن محمد کی نو عمری کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مسیحیوں نے معاہدہ توڑ دیا جس پر 1446ء میں مراد نے دوبارہ مسند اقتدار سنبھالی اور دوسری جنگ کوسوو میں مسیحی اتحاد کو کچل کر رکھ دیا۔ بلقان میں مسیحیوں کو عظیم شکست دینے کے بعد انھوں نے مشرق کا رخ کیا اور امیر تیمور کے بیٹے شاہ رخ تیموری کو شکست دی اور امارت کره مان کو اپنی قلمرو میں شامل کیا۔ 1450ء کے موسم سرما میں وہ بیمار پڑ گئے اور ادرنہ میں وفات پائی۔ محمد دوم (المعروف سلطان محمد فاتح) نے ان کی جگہ تخت سنبھالا۔
محمد دوم
[ترمیم]سلطان کی حیثیت سے محمد ثانی کا پہلا ہدف قسطنطنیہ کو فتح کرنا تھا اور 15 اپریل 1452ء کو انھوں نے قسطنطنیہ کا محاصرہ کرنے کے احکامات جاری کیے۔ 1453ء میں انھوں نے محاصرہ قسطنطنیہ میں کامیابی حاصل کرکے بازنطینی سلطنت کا ہمیشہ کے لیے خاتمہ کر دیا۔ قسطنطنیہ کی فتح نے سلطنت عثمانیہ کو ایک دنیا بھر میں شاندار عظمت اورعزت عطا کی اور عثمانی پہلی بار ایک بھرپور قوت کے طور پر ابھرے۔ فتح قسطنطنیہ کے بعد محمد ثانی نے اپنے لیے قیصر روم کا خطاب چنا جبکہ دنیا آج تک انھیں محمد فاتح کے نام سے جانتی ہے۔ انھوں نے اناطولیہ اور یورپ میں بھی فتوحات حاصل کیں اور بلقان کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کیا۔ ان کی فوج نے اٹلی پر بھی حملے کیے جن میں اوٹرانٹو فتح ہوا۔ تاہم یہ قبضہ محمد کے انتقال کے باعث صرف ایک سال جاری رہا۔ محمد کو محاصرہ بلغراد میں شکست ہوئی۔ 3 مئی 1481ء کو ان کا انتقال ہوا۔