زہرہ
تعین کاری | |||||||||||||
---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|---|
تلفُّظ | /ˈviːnəs/ ( سنیے) | ||||||||||||
صفات | زہری | ||||||||||||
محوری خصوصیات[1][3] | |||||||||||||
مفروضہ وقت J2000 | |||||||||||||
اوج شمسی |
| ||||||||||||
حضیض شمسی |
| ||||||||||||
| |||||||||||||
انحراف | 0.0067 | ||||||||||||
| |||||||||||||
583.92 دن[1] | |||||||||||||
اوسط گردشی رفتار | 35.02 km/s | ||||||||||||
50.115° | |||||||||||||
میلانیت |
| ||||||||||||
76.678° | |||||||||||||
55.186° | |||||||||||||
معلوم قدرتی سیارچہ | نہیں | ||||||||||||
طبیعی خصوصیات | |||||||||||||
اوسط رداس |
| ||||||||||||
چپٹا پن | 0[4] | ||||||||||||
| |||||||||||||
حجم |
| ||||||||||||
کمیت |
| ||||||||||||
اوسط کثافت | 5.243 g/cm3 | ||||||||||||
| |||||||||||||
10.36 km/s | |||||||||||||
فلکی محوری گردش | ( −243.0185 دنRetrograde) | ||||||||||||
استوائی گردشی_رفتار | 6.52 کلومیٹر/گھنٹہ (1.81 میٹر/سیکنڈ) | ||||||||||||
177.36°[1] | |||||||||||||
North_pole right ascension |
| ||||||||||||
North_pole declination | 67.16° | ||||||||||||
Albedo | |||||||||||||
| |||||||||||||
9.7″ to 66.0″[1] | |||||||||||||
فضا | |||||||||||||
سطحی ہوا کا دباؤ | 92 bar (9.2 MPa) | ||||||||||||
زہرہ : سورج سے دوسرا سیارہ ہے اور سورج کے گرد ایک چکر زمینی وقت کے مطابق 224.7 دنوں میں مکمل کرتا ہے۔ اس کا نام قدیم رومن دیوی زہرہ (venus)کے نام پر رکھا گیا ہے جو محبت و حسن کی دیوی کہلاتی تھی۔ رات کے وقت آسمان پر ہمارے چاند کے بعد دوسرا روشن ترین خلائی جسم ہے۔ اس کی روشنی سایہ بنا سکتی ہے۔ یہ سیارہ عموماً سورج کے آس پاس ہی دکھائی دیتا ہے۔ سورج غروب ہونے سے ذرا بعد یا سورج طلوع ہونے سے ذرا قبل زہرہ کی روشنی تیز ترین ہوتی ہے۔ اس وجہ سے اسے صبح یا شام کا ستارہ بھی کہا جاتا ہے۔
زہرہ کو ارضی سیارہ بھی کہا جاتا ہے اور بعض اوقات اسے زمین کا جڑواں سیارہ بھی کہتے ہیں کیونکہ دونوں کا حجم، کششِ ثقل اور جسامت ایک جیسی ہیں۔ زہرہ کی سطح پر سلفیورک ایسڈ کے انتہائی چمکدار بادل موجود ہیں جن کے پار دیکھنا عام حالات میں ممکن نہیں۔ زہرہ کی فضاء تمام ارضی سیاروں میں سب سے زیادہ کثیف ہے جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ زہرہ پر کاربن سائیکل موجود نہیں جو کاربن کو چٹانوں اور دیگر ارضی اجسام میں جکڑ سکے اور نہ ہی اس پر نامیاتی زندگی موجود ہے جو کاربن کو اپنے استعمال میں لا سکے۔ ابتدائی دور میں زہرہ کے بارے خیال کیا جاتا ہے کہ یہاں زمین کی طرح سمندر موجود تھے تاہم درجہ حرارت بڑھنے سے وہ خشک ہو گئے۔ زہرہ کی سطح زیادہ تر مٹیالی اور صحرائی نوعیت کی ہے اور پتھریلی چٹانیں پائی جاتی ہیں۔ زہرہ پر آتش فشانی عمل بھی جاری رہتا ہے۔ چونکہ زہرہ کا اپنا مقناطیسی میدان نہیں اس لیے ساری ہائیڈروجن خلاء میں نکل گئی ہے۔ زہرہ کا ہوا کا دباؤ زمین کی نسبت 92 گنا زیادہ ہے۔
زہرہ کی سطح کے بارے بہت ساری قیاس آرائیاں کی جاتی تھیں۔ تاہم 1990 تا 1991 جاری رہنے والے میگیلن منصوبے کے تحت کافی معلومات حاصل ہوئی ہیں۔ اس منصوبے کے تحت سارے سیارے کی نقشہ بندی کی گئی ہے۔ سطح پر کثیر آتش فشانی تحاریک کے آثار ملے ہیں۔ ماحول میں گندھک کی بہت بڑی مقدار سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ حال ہی میں کوئی بڑا آتش فشاں پھٹا ہے۔ تاہم لاوے کے بہاؤ کے بارے کوئی ثبوت نہیں ملے جو ایک معما ہے۔ زہرہ کی سطح پر کچھ مقامات پر شہاب ثاقب کے گرنے کے آثار بھی موجود ہیں اور اندازہ ہے کہ اس کی سطح تقریباً 30 سے 60 کروڑ سال پرانی ہے۔ سطح کے نیچے پلیٹ ٹیکٹانکس کی کوئی شہادت نہیں ملی۔ شاید پانی کے نہ ہونے سے سطح بہت زیادہ ٹھوس ہو چکی ہے۔ تاہم سطح کے اوپر نیچے ہونے سے زہرہ کی زیادہ تر اندرونی حرارت ختم ہو جائے گی۔
طبعی خد و خال
[ترمیم]ہمارے نظام شمسی کے چار ارضی سیاروں میں سے زہرہ ایک ہے جس کا مطلب ہے کہ ہماری زمین کی طرح زہرہ بھی پتھریلی نوعیت کا ہے۔ اس کا حجم اور وزن دونوں ہی زمین کے مماثل ہیں۔ اسے زمین کی بہن یا جڑواں سیارہ بھی کہا جاتا ہے۔ زہرہ کا قطر زمین کے قطر سے 650 کلومیٹر کم ہے اور اس کا وزن زمین کے وزن کا 81.5 فیصد ہے۔ تاہم سطح اور فضاء کی ساخت کے اعتبار سے زہرہ اور زمین میں بہت بڑا فرق ہے۔ زہرہ کی فضاء کا 96.5 فیصد حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ جبکہ بقیہ ساڑھے تین فیصد کا زیادہ تر حصہ نائٹروجن پر مشتمل ہے۔
اندرونی ساخت
[ترمیم]ارضیاتی مواد کے بغیر یا جمود کو جانے بغیر ہمیں زہرہ کی جیو کیمسٹری یا اندرونی ساخت کا محدود علم ہے۔ تاہم زمین اور زہرہ کے درمیان موجود مماثلت کی وجہ سے ہم یہ اندازہ لگا سکتے ہیں کہ زہرہ بھی تین مختلف سطحوں یعنی مرکزہ، مینٹل اور کرسٹ پر مشتمل ہیں۔ زہرہ کا مرکزہ کسی حد تک مائع ہے کیونکہ زمین اور زہرہ ایک ہی رفتار سے ٹھنڈے ہوتے رہے ہیں۔ چھوٹی جسامت کی وجہ سے زہرہ کے مرکزہ پر کم دباؤ ہے۔ زہرہ کی سطح کے نیچے پلیٹ ٹیکٹانکس موجود نہیں۔ اس وجہ سے زہرہ سے حرارت کا اخراج کم رفتار سے ہوتا ہے۔
جغرافیہ
[ترمیم]زہرہ کی سطح کا تقریباً 80 فیصد حصہ ہموار آتش فشانی میدانوں سے بنا ہے۔ ان میں سے 70 فیصد پر جھریاں سی موجود ہیں اور 10 فیصد بالکل ہموار ہے۔ باقی حصہ دو "براعظموں" پر مشتمل ہے۔ ان میں سے ایک شمالی نصف کرے پر جبکہ دوسرا خط استوا کے ذرا جنوب میں ہے۔ شمالی براعظم کو اشتر ٹیرا کہتے ہیں۔ اس کا رقبہ آسٹریلیا کے برابر ہے۔ میکسویل مونٹس نامی پہاڑ اسی براعظم پر موجود ہے۔ اس کی چوٹی زہرہ کی اوسط بلندی سے 11 کلومیٹر بلند ہے۔ جنوبی براعظم کو ایفروڈائٹ ٹیرا کہتے ہیں۔ اس کا رقبہ براعظم جنوبی امریکا کے لگ بھگ ہے۔ زیادہ تر جھریاں اور کھائیاں اسی براعظم میں پائی جاتی ہیں۔
شہاب ثاقب کے ٹکراؤ سے بننے والے گڑھوں ، پہاڑؤں اور دریاؤں کی موجودگی ارضی سیاروں پر عام پائی جاتی ہے تاہم زہرہ کی اپنی کچھ منفرد خصوصیات ہیں۔ ان میں مسطح چوٹیوں والے آتش فشاں ہیں جن کا قطر 20 سے 50 کلومیٹر تک ہو سکتا ہے اور ان کی بلندی 100 سے 1000 میٹر تک ہو سکتی ہے۔ اس کے علاوہ مکڑی کی جالے کی شکل کی کھائیاں وغیرہ بھی پائی جاتی ہیں۔ یہ تمام آثار آتش فشانی عمل کی یادگار ہیں۔
زہرہ کے زیادہ تر طبعی خد و خالوں کے نام دیومالائی زنانہ کرداروں سے لیے گئے ہیں۔
سطحی جغرافیہ
[ترمیم]زہرہ کی سطح کا زیادہ تر رقبہ بظاہر آتش فشانی عمل سے بنا ہے۔ زہرہ پر زمین کی نسبت کئی گنا زیادہ آتش فشاں پائے جاتے ہیں اور 167 آتش فشاں 100 کلومیٹر سے زیادہ چوڑے ہیں۔زمین پر اس طرح کا واحد آتش فشانی مجموعہ ہوائی کے بگ آئی لینڈ پر واقع ہے۔ تاہم اس کی وجہ آتش فشانی سرگرمیاں نہیں بلکہ زہرہ کی سطح کا زیادہ پرانا ہونا ہے۔ زمین کی سطح تقریباً 10 کروڑ سال بعد بدلتی رہتی ہے جبکہ زہرہ کی سطح کم از کم 30 سے 60 کروڑ سال پرانی ہے۔
مختلف شہادتوں سے زہرہ پر جاری آتش فشانی عمل کے بارے ثبوت ملتے ہیں۔ روسی وینیرا پروگرام کے دوران وینیرا 11 اور 12 خلائی جہازوں نے متواتر ہونے والی بجلی کی چمک دیکھی جبکہ وینیرا 12 نے اترتے ہی بادلوں کی گرج سنی۔ یورپی خلائی ایجنسی کے وینس ایکسپریس نے بالائی فضاء میں بہت بجلی چمکتی دیکھی۔ زمین پر گرج چمک ، طوفان باد و باراں کو ظاہر کرتی ہے، زہرہ پر یہ بارش پانی کی بجائے گندھک کے تیزاب کی شکل میں ہوتی ہے۔ تاہم سطح سے 25 کلومیٹر اوپر ہی یہ تیزاب بخارات بن کر واپس لوٹ جاتا ہے۔ ایک امکان یہ بھی ہے کہ یہ آسمانی بجلی آتش فشانی راکھ سے پیدا ہوتی ہے۔ ایک اور ثبوت سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار سے بھی متعلق ہے۔ 1978 تا 1986 زہرہ کی فضاء میں اس کی مقدار دس گنا کم ہوئی ہے۔ عین ممکن ہے کہ کسی حالیہ آتش فشانی عمل سے سلفر ڈائی آکسائیڈ کی مقدار اچانک بڑھ گئی ہو۔
زہرہ کی سطح پر شہاب ثاقب کے ٹکراؤ سے بننے والے ایک ہزار گڑھے موجود ہیں جو سطح پر یکساں پھیلے ہوئے ہیں۔ زمین اور چاند پر موجود اس طرح کے گڑھے وقت کے ساتھ ساتھ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتے ہیں۔ چاند پر اس ٹوٹ پھوٹ کی ذمہ داری بعد میں گرنے والے دیگر شہاب ثاقب ہوتے ہیں جبکہ زمین پر ہوا اور بارش کی وجہ سے ان گڑھوں کی شکل خراب ہوتی رہتی ہے۔ زہرہ پر موجود گڑھوں کی 85 فیصد تعداد انتہائی اچھی حالت میں ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ زہرہ کی سطح 30 سے 60 کروڑ سال قبل بدلی تھی جس کے بعد آتش فشانی عمل سست ہو گیا تھا۔ زمین کی سطح مسلسل حرکت میں رہتی ہے لیکن اندازہ ہے کہ زہرہ پر ایسا عمل نہیں ہوتا۔ پلیٹ ٹیکٹانکس کی عدم موجودگی کی وجہ سے زہرہ کا اندرونی درجہ حرارت بڑھتا رہتا ہے یہاں تک کہ انتہائی گرم ہو کر اوپری سطح پھٹتی ہے اور تقریباً ساری سطح ہی ایک وقت میں بدل جاتی ہے۔
زہرہ کے گڑھوں کا حجم 3 سے 280 کلومیٹر تک ہو سکتا ہے۔ 3 کلومیٹر سے کم چوڑا گڑھا زہرہ پر نہیں پایا جاتا جس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ زہرہ کی فضاء بہت کثیف ہے۔ ایک خاص حد سے کم رفتار والے اجسام کی رفتار اتنی کم ہو جاتی ہے کہ وہ گڑھا نہیں بنا پاتے۔ 50 میٹر سے کم چوڑے شہابیئے زہرہ کی فضاء میں ہی ٹوٹ کر بکھر جاتے ہیں۔
فضاء اور موسم
[ترمیم]زہرہ کی فضاء انتہائی کثیف ہے جو زیادہ تر کاربن ڈائی آکسائیڈ اور نائٹروجن کی معمولی مقدار سے بنی ہے۔ زہرہ پر ہوا کا دباؤ زمین کی نسبت 92 گنا زیادہ جبکہ فضاء کا وزن 93 گنا زیادہ ہے۔ یہ دباؤ اتنا زیادہ ہے جتنا کہ زمین کے سمندر کے ایک کلومیٹر نیچے ہے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ سے بھری ہوئی فضاء اور سلفر ڈائی آکسائیڈ سے بنے موٹے بادلوں کی وجہ سے سطح کا درجہ حرارت 460 ڈگری رہتا ہے۔ اگرچہ زحل عطارد کی نسبت سورج سے دو گنا زیادہ دور ہے لیکن اس کا درجہ حرارت عطارد سے زیادہ رہتا ہے۔ زہرہ کی سطح کو عرف عام میں جہنم سے تشبیہ دی جاتی ہے۔
سائنسی مطالعے سے یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ کئی ارب سال قبل زہرہ کی فضاء آج کی زمین سے مماثل تھی اور عین ممکن ہے کہ زہرہ کی سطح پر پانی بکثرت پایا جاتا ہو۔ تاہم درجہ حرارت بلند ہونے کے ساتھ ساتھ ہی یہ سارا پانی بخارات بن کر اڑ گیا۔
زہرہ کی اپنے مدار پر انتہائی سست حرکت کے باوجود حرارتی جمود اور زیریں فضاء میں ہوا کی وجہ سے حرارت کی منتقلی کی وجہ سے زہرہ کی سطح کے درجہ حرارت پر دن یا رات کو زیادہ فرق نہیں ہوتا۔ سطح پر ہوا کی رفتار زیادہ سے زیادہ چند کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے تاہم کثیف فضاء کے دباؤ کی وجہ سے یہاں انسان کا پیدل چلنا بہت مشکل ہے۔ آکسیجن کی کمی اور شدید گرمی اس پر مستزاد ہیں۔
بالائی فضاء میں موجود کاربن ڈائی آکسائیڈ کی بھاری مقدار اور سلفر ڈائی آکسائیڈ اور گندھک کے تیزاب سے بنے بادل سورج کی روشنی کا 60 فیصد حصہ واپس دھکیل دیتے ہیں۔ اس طرح خلاء سے زہرہ کی سطح کا براہ راست مشاہدہ کرنا ممکن نہیں۔ اگرچہ زہرہ زمین کی نسبت سورج کے زیادہ قریب ہے لیکن ان گہرے بادلوں کی وجہ سے اتنی روشنی نہیں پہنچتی۔ 300 کلومیٹر کی رفتار سے چلنے والی ہواؤں کی وجہ سے بادلوں کی اوپری چوٹیاں 4 سے 5 زمینی دنوں میں زہرہ کا چکر لگا لیتی ہیں۔ زہرہ پر ہوا کی رفتار اس کی محوری گردش سے 60 گنا زیادہ تیز ہیں جبکہ زمین پر ہوا کی تیز ترین رفتار محوری گردش کا محض 10 سے 20 فیصد ہوتی ہیں۔
زہرہ پر دن اور رات ، قطبین اور خط استوا کے درجہ حرارت تقریباً یکساں رہتے ہیں۔ اس کے علاوہ زہرہ پر موسم بھی تقریباً یکساں ہی رہتا ہے۔ تاہم بلندی کے ساتھ ساتھ درجہ حرارت بدل سکتا ہے۔ 1995 میں ایک خلائی جہاز میگلن نے سب سے اونچے پہاڑ کی چوٹی پر چمک دیکھی جو زمینی برف کے مماثل تھی۔ یہ برف ممکنہ طور پر زمینی برف کے بننے کے عمل سے پید اہوئی تھی لیکن وہاں کے ماحول کا درجہ حرارت بہت بلند تھا۔ اندازہ ہے یہ برف لیڈ سلفائیڈ یا ٹیلیرئم سے بنی ہے۔
زہرہ کے بادلوں میں زمینی بادلوں کی نسبت زیادہ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ اس کا پہلے پہل مشاہدہ روسی خلائی جہاز وینیرا نے کیا تھا۔ تاہم 2006 تا 2007 وینس ایکسپریس نے موسم سے متعلقہ تبدیلیاں دیکھیں۔ بجلی چمکنے کی شرح زمین کی نسبت نصف ہے۔ 2007 میں وینس ایکسپریس نے جنوبی قطب پر مستقل دوہرا قطبی طوفان دیکھا۔
مقناطیسی میدان اور مرکزہ
[ترمیم]1967 میں وینیرا 4 نے زہرہ پر موجود انتہائی کمزور مقناطیسی میدان دریافت کیا۔ یہ مقناطیسی میدان زمین کے برعکس محض قطبی ہواؤں اور آئنو سفیئر کے درمیان تعلق سے پیدا ہوتا ہے۔ اس مقناطیسی میدان کی وجہ سے زہرہ پر آنے والی خلائی تابکاری کا معمولی سا حصہ رک جاتا ہے۔
طاقتور مقناطیسی میدان کی عدم موجودگی حیران کن ہے کیونکہ دیگر بہت سارے حوالوں سے زہرہ اور زمین ایک جیسے ہیں۔
مدار اور گردش
[ترمیم]زہرہ سورج کے گرد تقریباً 10 کروڑ 80 لاکھ کلومیٹر کے فاصلے پر گردش کرتا ہے۔ ایک گردش پوری کرنے پر اسے 224.65 زمینی دن لگتے ہیں۔ اگرچہ تمام تر سیاروں کے مدار بیضوی ہوتے ہیں تاہم زہرہ کا مدار تقریباً گول ہے۔ زہرہ زمین اور سورج کے درمیان زمین کا قریب ترین سیارہ ہے اور اس کا اوسط فاصلہ زمین سے 4 کروڑ 10 لاکھ کلومیٹر ہے۔ مثال کے طور پر پہلے 5383 سال کے دوران زہرہ 526 مرتبہ زمین سے 4 کروڑ کلومیٹر سے کم فاصلے سے گذرا ہے۔ تاہم اگلے 60٫200 سال تک فاصلہ 4 کروڑ کلومیٹر سے کم نہیں ہوگا۔ زہرہ اور زمین کا کم سے کم فاصلہ 3 کروڑ 82 لاکھ کلومیٹر سے کم نہیں ہو سکتا۔
اگر سورج کے شمالی قطب سے دیکھا جائے تو تمام سیارے سورج کے گرد گھڑیال مخالف رخ گھومتے ہیں ۔ اسی طرح ان تمام سیاروں کی اپنے محور کے گرد گردش گھڑیال مخالف سمت ہوتی ہے تاہم زہرہ کی گردش گھڑیال موافق ہے۔
زہرہ 243 زمینی دنوں میں ایک بار گھومتا ہے۔ خط استوا پر اس کی حرکت کی رفتار ساڑھے چھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے جو ہمارے نظام شمسی کے بڑے سیاروں میں سب سے کم ہے۔ زمین پر یہی رفتار 1٫670 کلومیٹر فی گھنٹہ ہوتی ہے۔ زہرہ پر سورج مغرب سے نکلتا اور مشرق میں غروب ہوتا ہے۔ زہرہ کا ایک دن زمینی اعتبار سے 116.75 دنوں کے برابر ہے۔ اس طرح زہرہ کا ایک سال 1.92 دنوں پر مشتمل ہوتا ہے۔
دلچسپ امر یہ ہے کہ زہرہ کا مدار اور اس کی گردش کچھ اس طرح کی ہے کہ ہر 584 زمینی دنوں میں زہرہ زمین کے قریب آ جاتا ہے۔ یہ مدت زہرہ کے 5 دنوں کے برابر ہے۔
اس وقت زہرہ کا اپنا کوئی چاند نہیں۔
مشاہدہ
[ترمیم]زہرہ ہمیشہ دیگر ستاروں سے زیادہ روشن دکھائی دیتا ہے۔ سب سے زیادہ روشن یہ تب دکھائی دیتا ہے جب زمین کے قریب ہوتا ہے۔ جب سورج زہرہ کے عقب میں ہو تو اس کی روشنی کچھ ماند پڑ جاتی ہے۔ یہ سیارہ اتنا روشن ہے کہ عین دوپہر کے وقت جب مطلع صاف ہو تو اسے دیکھا جا سکتا ہے۔ تاہم طلوع آفتاب یا غروب آفتاب کے وقت زہرہ کا مشاہدہ زیادہ آسانی سے کیا جا سکتا ہے۔ جب زہرہ کی آب و تاب عروج پر ہو تو کئی لوگ اسے غلطی سے اڑن طشتری سمجھ لیتے ہیں۔
اپنے مدار پر گردش کے دوران زہرہ بھی چاند کی طرح گھٹتا بڑھتا دکھائی دیتا ہے جو دوربین کی مدد سے دیکھا جا سکتا ہے۔
زہرہ کا مدار کچھ اس طرح کا ہے کہ یہ بہت کم سورج کے سامنے سے گذرتا دکھائی دیتا ہے۔ تاہم اس وقت زہرہ کا مدار کچھ اس نوعیت کا ہے کہ ہر 243 سال میں ایک بار سورج کے سامنے سے گذرتا ہے۔ موجودہ حساب کے مطابق زہرہ ہر 105.5 یا 121.5 سال بعد گذرتا ہے۔ حال ہی میں جون 2004 میں زہرہ سورج کے سامنے سے گذرا تھا اور اس کا اگلا چکر جون 2012 میں لگے گا۔ اس سے قبل یہ واقعہ دسمبر 1874 اور دسمبر 1882 میں پیش آیا تھا۔ اگلی بار یہ واقعہ دسمبر 2117 اور دسمبر 2125 میں پیش آئے گا۔ تاریخی اعتبار سے زہرہ کا سورج کے سامنے سے گذرنا بہت اہم سمجھا جاتا تھا کیونکہ اس سے سائنسدانوں کو فکلیاتی اکائی کی پیمائش کرنے کا موقع ملتا تھا جو نظام شمسی کی پیمائش کے لیے اہم تھا۔ آسٹریلیا کے مشرقی ساحل کی مہم جوئی سے قبل کیپٹن جیمز کک 1768 میں تاہیتی میں زہرہ کے سورج کے سامنے سے گذرنے کا مشاہدہ کیا تھا۔
مطالعہ
[ترمیم]قدیم مطالعہ جات
[ترمیم]زہرہ کو قدیم تہذیبوں میں صبح اور شام کے ستارے کے نام سے جانا جاتا تھا۔ تاہم ان دنوں صبح کا ستارہ اور شام کا ستارہ دو الگ الگ ستارے مانے جاتے تھے۔ قدیم بابلی تحریروں سے پتہ چلتا ہے کہ اہل بابل صبح اور شام کے ستارے کو ایک ہی ستارہ مانتے تھے اور اسے اپنی کتب میں آسمان کی چمکدار ملکہ کہتے تھے۔ یونانی اسے دو الگ الگ ستارے سمجھتے تھے لیکن فیثا غورث نے چھٹی صدی قبل مسیح میں اسے ایک ستارہ ثابت کیا۔
1032 میں پہلی بار ایرانی ستارہ شناس ابن سینا نے زہرہ کے سورج کے سامنے سے گذرنے کا مشاہدہ کیا۔ انھوں نے یہ بھی بتایا کہ زہرہ سورج کی نسبت زمین سے زیادہ قریب ہے اور یہ بھی کہ زہرہ بعض اوقات سورج کے نیچے بھی ہو سکتا ہے۔ 12ویں صدی میں ابو بجاہ نے سورج پر دو دھبے دیکھے جو بعد ازاں 13ویں صدی میں مراغا کے ستارہ شناس قطب الدین شیرازی نے ثابت کیا کہ یہ دھبے زہرہ اور عطارد کے سورج کے سامنے سے گذرنے کی علامت تھے۔
جب اطالوی طبیعیات دان گلیلیو گلیلی نے پہلی بار 17ویں صدی میں زہرہ کا مشاہدہ کیا اور بتایا کہ چاند کی طرح زہرہ بھی گھٹتا بڑھتا ہے۔ انھوں نے ثابت کیا کہ اس طرح گھٹنے بڑھنے سے واضح ہوتا ہے کہ زہرہ سورج کے گرد چکر لگاتا ہے۔ اس طرح پہلی بار کسی نے سائنسی بنیادوں پر بطلیموس کے اس دعوے کو رد کیا کہ نظام شمسی زمین کے گرد گردش کرتا ہے۔
1761 میں پہلی بار روسی شخص میخائل لومونوسوف نے زہرہ کی فضاء دریافت کی۔ زہرہ کی فضاء کا مشاہدہ 1790 میں جرمن ستارہ شناس جان شروٹر نے بھی کیا۔ شروٹر نے دیکھا کہ ہلال کی شکل کا زہرہ تھا اور اس کے دونوں سرے 180 ڈگری سے زیادہ پھیلے ہوئے تھے۔ اس نے اس مشاہدے سے درست اندازہ لگایا کہ اس کی وجہ زہرہ کی فضاء میں روشنی کا بکھرنا ہے۔
زمین سے تحقیق
[ترمیم]20ویں صدی سے قبل تک زہرہ کے متعلق بہت کم معلومات تھیں۔ اس وقت تک کے مشاہدات کے مطابق تھالی نما شکل پر کوئی خاص آثار نہیں تھے۔ تاہم سپیکٹرو سکوپ، ریڈار اور بالائی بنفشی دوربینوں سے ہمیں زہرہ کے رازوں کے بارے پتہ چلا ہے۔ پہلی بار بالائے بنفشی مطالعہ 1920 میں کیا گیا جب فرینک روس نے بالائے بنفشی تصاویر کی مدد سے زہرہ کے وہ خد و خال دیکھے جو عام روشنی اور زیریں سرخ روشنی سے دکھائی نہیں دیتے تھے۔
1900 کی دہائی میں ہونے والے سپیکٹرو سکوپ سے مشاہدے سے زہرہ کے گردش کے بارے معلوم ہوا۔ ویسٹو سلیفر نے زہرہ سے آنے و الی روشنی کی ڈاپلر شفٹ مطالعہ کرنے سے جانا کہ زہرہ اپنے محور کے گرد بالکل نہیں گھوم رہا۔ اس نے اپنی رائے ظاہر کی کہ شاید زہرہ کا مدار بہت بڑا ہے۔ بعد میں 1950 کی دہائی کے مشاہدات سے واضح ہوا کہ زہرہ کی محور پر حرکت گھڑیال موافق رخ پر ہے۔ 1960 میں ریڈار سے ہونے والے مشاہدات سے مزید معلومات ملیں۔
1970 میں ریڈار سے مطالعہ ہونا شروع ہوا۔ اس سلسلے میں 300 میٹر کی ریڈیو دوربین استعمال کی گئی تھی۔ اس سے زہرہ پر دو روشن مقامات دیکھے گئے۔ انھیں الفا اور بیٹا کے نام دیے گئے۔ اس طرح ایک پہاڑی علاقہ بھی دریافت ہوا جسے میکسوئل مونٹس کا نام دیا گیا۔ زہرہ پر یہ صرف تین مقامات ایسے ہیں جنہیں مذکر نام دیے گئے ہیں۔
مہم جوئی
[ترمیم]ابتدائی کوششیں
[ترمیم]12 فروری 1961 کو زہرہ کو پہلی بار خلائی جہاز بھیجا گیا جو کسی بھی دوسرے سیارے کو بھیجا جانے و الا پہلا جہاز تھا۔ اس کا نام وینیرا اول تھا۔ تاہم سات دن بعد جب یہ جہاز زمین سے 20 لاکھ کلومیٹر دور تھا تو اس کا رابطہ منقطع ہو گیا اور اندازہ ہے کہ زہرہ سے وسط مئی میں ایک لاکھ کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا۔
امریکا کی جانب سے بھی زہرہ کی ابتدائی مہم جوئی کی ناکام ابتدا ہوئی۔ میرینر اول جہاز بھیجا گیا تھا۔ میرینر دوم جہاز البتہ کافی کامیاب رہا اور زہرہ کے مدار میں 109 دن گردش کرنے کے بعد 14 دسمبر 1962 میں یہ زہرہ کی سطح سے 34،833 کلومیٹر دور پہنچا۔ زمین کی طرف سے ہونے والا یہ پہلا کامیاب مشن تھا۔ مائیکرو ویو اور زیریں سرخ ریڈیو میٹروں سے پتہ چلا کہ زہرہ کے بادلوں کی چوٹیاں اگرچہ ٹھنڈی ہیں تاہم اس کی سطح کا درجہ حرارت کم از کم 425 ڈگری سینٹی گریڈ ہے۔ اس طرح زہرہ پر زندگی کی تمام تر امیدیں دم توڑ گئیں۔ اگرچہ میرینر دوم نے زہرہ کے مادے اور فلکیاتی اکائی کی کامیاب پیمائش کی لیکن کسی قسم کے مقناطیسی میدان یا تابکار پٹی کا کوئی ثبو ت نہیں ملا۔
فضاء میں داخلہ
[ترمیم]روسی وینیرا سوم جہاز یکم مارچ 1966 کو زہرہ کی سطح سے ٹکرایا۔ پہلی بار انسان کا بنایا ہوا کوئی مصنوعی جسم کسی دوسرے سیارے کی فضاء میں داخل ہوا اور اس کی سطح سے ٹکرایا۔ تاہم کسی قسم کا مواد واپس بھیجنے سے قبل اس کا مواصلاتی نظام خراب ہو گیا تھا۔ زہرہ پر اگلا سیارہ وینیرا چہارم 18 اکتوبر 1967 کو پہنچا اور مدا رمیں داخل ہونے کے بعد اس نے کامیابی سے ڈھیروں سائنسی تجربات مکمل کیے۔ اس جہاز نے ثابت کیا کہ زہرہ کی سطح کا درجہ حرارت میرینر جہاز کے اندازے کے برخلاف زیادہ گرم تھا اور اس کی فضاء کا 90 سے 95 فیصد حصہ کاربن ڈائی آکسائیڈ پر مشتمل ہے۔ اس جہاز کے بنانے والوں کے اندازے کے برعکس زہرہ کی فضاء زیادہ کثیف تھی یعنی پیراشوٹ کی مدد سے جہاز کے سطح تک پہنچنے پر اندازے سے زیادہ وقت لگا اور اس کی بیٹریاں خالی ہو گئیں۔ اترتے وقت اس جہاز سے 93 منٹ تک مواد موصول ہوتا رہا۔ اس وقت جہاز سطح سے تقریباً 25 کلومیٹر اوپر تھا۔
اگلے ہی دن یعنی 19 اکتوبر 1967 کو میرینر پنجم جہاز زہرہ کے مدار میں داخل ہوا اور بادلوں کی چوٹیوں سے 4000 کلومیٹر سے بھی کم فاصلے پر گردش کرنے لگا۔ یہ جہاز دراصل مریخ پر بھیجے جانے والے میرینر چہارم کے متبادل کے طور پر تیار ہوا تھا۔ تاہم میرینر چہارم کی کامیابی کے بعد اس جہاز میں تبدیلیاں کر کے اسے زہرہ کی طرف روانہ کیا گیا۔ اس پر موجود سائنسی آلات میرینر دوم سے زیادہ جدید تھے اور اس نے زہرہ کی فضاء کی کثافت، دباؤ اور ساخت کے بارے قیمتی معلومات بھیجیں۔ بعد میں ان معلومات کو روسی جہاز سے حاصل شدہ معلومات کے ساتھ ملا دیا گیا اور روس اور امریکا کے خلائی سائنسدانوں نے ان پر مشترکہ طور پر کام شروع کیا۔
وینیرا چہارم سے حاصل شدہ معلومات کی روشنی میں وینیرا پنجم اور ششم کو پانچ دنوں کے وقفے سے جنوری 1969 میں زہرہ کو روانہ کیا گیا۔ ایک دن کے وقفے سے یہ جہاز 16 اور 17 مئی کو زہرہ تک پہنچے۔ ان جہازوں کو زیادہ دباؤ برداشت کرنے کے قابل بنایا گیا تھا اور ان پر پیراشوٹ بھی چھوٹے لگائے گئے تھے تاکہ اترنے کا عمل تیز ہو۔ ان جہازوں پر 25 بار جتنا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت تھی۔ تاہم اس وقت کے اندازے کے مطابق زہرہ کی فضاء کا دباؤ 75 سے 100 بار تک تھا اس لیے ان جہازوں کی سطح تک پہنچنے کی کوئی امید نہیں تھی۔ 50 منٹ جتنا اترنے کے بعد اندازہً سطح سے 20 کلومیٹر اوپر زہرہ کے تاریک حصے پر دونوں جہاز تباہ ہو گئے۔
سطح اور فضائی سائنس
[ترمیم]وینیرا ہفتم کو اتنا مضبوط بنایا گیا کہ وہ زہرہ کی فضاء کو برداشت کر سکے۔ اس جہاز میں 180 بار جتنا دباؤ برداشت کرنے کی صلاحیت تھی۔ اس کے علاوہ نیچے اترنے کے عمل سے قبل اس جہاز کو ٹھنڈا کیا گیا اور خصوصی پیراشوٹ لگایا گیا تاکہ یہ خلائی جہاز 35 منٹ میں سطح پر اتر جائے۔ 15 دسمبر 1970 کو اترتے وقت پیراشوٹ پھٹ گیا اور یہ جہاز کافی تیزی سے سطح سے ترچھے ٹکرایا۔ ٹکراؤ کے بعد 23 منٹ تک اس جہاز سے سگنل ملتے رہے۔ یہ سگنل پہلی بار کسی دوسرے سیارے کی سطح سے زمین پر موصول ہوئے۔
وینیرا منصوبے کے تحت وینیرا ہشتم بھیجا گیا جس کے سطح پر اترنے کے 50 منٹ تک معلومات بھیجتا رہا۔ وینیرا ہشتم 22 جولائی 1972 کو زہرہ کی فضاء میں داخل ہوا۔ وینیرا نہم 22 اکتوبر 1975 کو زہرہ کی فضاء میں داخل ہوا ۔ وینیرا دہم اس کے تین دن بعد یعنی 25 اکتوبر کو زہرہ کی سطح پر اترا اور دونوں نے پہلی بار زہرہ کے مناظر کی تصاویر بھیجیں۔ دونوں جہاز مختلف جگہوں پر اترے اور دونوں مقامات پر انتہائی مختلف قسم کے مناظر دیکھنے کو ملے۔ وینیرا نہم 20 ڈگری ڈھلوان سطح پر اترا جہاں 30 سے 40 سم قطر کے پتھر موجود تھے جبکہ وینیرا دہم بسالٹ نما چٹانی سلیبوں پر اترا۔
اسی دوران امریکا نے میرینر دہم عطارد کو بھیجا جو زہرہ کی کشش کا فائدہ اٹھاتے ہوئے گذرنا تھا۔ یہ جہاز زہرہ سے 5٫790 کلومیٹر کے فاصلے سے گذرا اور 4٫000 سے زیادہ تصاویر بھی بھیجیں۔ ان تصاویر کے مطابق عام روشنی میں زہرہ کی سطح پر کچھ نہیں دکھائی دیا لیکن بالائے بنفشی روشنی کی مدد سے زہرہ کے بادلوں کی ایسی تفاصیل ملیں جو پہلے کبھی زمینی دوربینوں سے نہیں دکھائی دیے تھے۔
امریکی پائینیر وینس پراجیکٹ میں دو الگ الگ مشن تھے۔ پائینیر وینس آربٹر کو زہرہ کے مدار میں بیضوی مدار میں 4 دسمبر 1978 کو داخل کیا گیا جو وہاں تیرہ سال تک گردش کرتا رہا اور زہرہ کی فضاء کا ریڈار کی مدد سے مطالعہ اور سطح کی نقشہ کشی کرتا رہا۔ پائینیر وینس ملٹی پروب نے 9 دسمبر 1978 کو چار مختلف سیارچے زہرہ کی فضاء میں داخل کیے جنھوں نے اس کی ساخت، ہوا اور حدت کے بارے معلومات بھیجیں۔
اگلے چار سالوں میں چار مزید وینیرا جہاز بھیجے گئے۔ وینیرا گیارہ اور بارہ کا مقصد زہرہ کے برقی طوفانوں کاجائزہ لینا تھا اور وینیرا تیرہ اور چودہ یکم مارچ اور 5 مارچ 1982 کو کو سطح پر اترے اور پہلی بار ہمیں زہرہ کی رنگین تصاویر ملیں۔ ان چاروں جہازوں کو پیراشوٹ کی مدد سے اتارا گیا لیکن پیراشوٹ 50 کلومیٹر کی بلندی پر پیراشوٹ سے الگ ہو کر یہ جہاز کثیف فضاء سے ہوتے ہوئے آرام سے اتر گئے۔ وینیرا تیرہ اور چودہ کا کام جہاز پر موجود ایکس رے فلوریسینس سپیکٹرومیٹر کی مدد سے مٹی کے نمونوں کا جائزہ لینا تھا۔ وینیرا چودہ کا کیمرا بدقسمتی سے سطح سے ٹکرایا اور باقی سارا جہاز فضاء میں معلق ہو گیا جس سے مٹی کے تجزیے کا کام ٹھپ ہو گیا۔ وینیرا پروگرام 1983 میں وینیرا پندرہ اور سولہ کو زہرہ کے مدار میں چھوڑے جانے کے بعد ختم ہو گیا۔ان جہازوں کا مقصد سنتھیٹک اپرچر ریڈار کی مدد سے زہرہ کے طبعی خد و خال کا جائزہ لینا تھا۔
1985 میں سوویت یونین نے ہیلی کے دمدار ستارے اور زہرہ کے لیے مشترکہ مشن بھیجا۔ اس وقت ہیلی کا دمدار ستارہ نظام شمسی کے اندر سے گذر رہا تھا۔ دمدار ستارے کو جاتے ہوئے راستے میں خلائی جہاز نے 11 اور 15 جون 1985 کو ویگا پروگرام کے تحت دو سیارچے زہرہ کی فضاء میں داخل کیے اور غباروں کی مدد سے فضائی روبوٹ بھیجا گیا۔ یہ غبارے 53 کلومیٹر کی بلندی پر معلق ہو گئے جہاں کا درجہ حرارت اور ہوا زمین کی سطح جیسی تھی۔ یہ سیارچے 46 گھنٹے تک کارآمد رہے اور ان سے حاصل ہونے والی معلومات کے مطابق زہرہ کی سطح سابقہ اندازوں سے کہیں زیادہ متحرک ہے۔
ریڈار کی مدد سے نقشہ کشی
[ترمیم]امریکا کے میگلن سیارچے کو 4 مئی 1989 میں بھیجا گیا جس کا مقصد زہرہ کی سطح کی نقشہ کشی بذریعہ ریڈار کرنا تھا۔ پہلے ساڑھے چار سالوں کے دوران ملنے والی عمدہ تصاویر پہلے والی تصاویر سے کہیں بہتر تھیں۔اس سیارچے نے 98 فیصد سے ز یادہ رقبے کی نقشہ کشی کامیابی سے کی۔ 1994 میں اپنے مشن کے خاتمے پر اس سیارچے کو زہرہ کی فضاء میں تباہ ہونے کے لیے بھیج دیا گیا۔
حالیہ اور مستقبل کے مشن
[ترمیم]ناسا کے میسنجر مشن جب عطارد کو روانہ ہوئے تو اکتوبر 2006 اور جون 2007 میں زہرہ کے قریب سے گذرے تاکہ زہرہ کی کشش سے اپنی رفتار کم کر سکیں۔ یہ جہاز مارچ 2011 میں عطارد کے مدار پر داخل ہونے تھے۔ میسنجر نے دونوں بار گذرتے ہوئے سائنسی معلومات اکٹھی کیں۔
وینس ایکسپریس نامی خلائی جہاز کو یورپی خلائی ایجنسی نے بنایا تھا اور اسے 9 نومبر 2005 کو روسی راکٹ کی مدد سے بھیجا گیا۔ یہ جہاز کامیابی سے 11 اپریل 2006 کو زہرہ کے مدار میں داخل ہو گیا۔اس جہاز کا مقصد زہرہ کی فضاء، بادل ، طبعی خد و خال، پلازما کا جائزہ اور سطح کے درجہ حرارت وغیرہ کی پیمائش ہے۔ سب سے پہلے ملنے والی معلومات میں جنوبی قطب پر موجود دوہرا بڑا سائیکلون اہم ہے۔
جاپان کی خلائی ایجنسی نے زہرہ کے مدار کے لیے ایک جہاز اکاٹسوکی تیار کیا۔ اسے 20 مئی 2010 میں روانہ کیا گیا تاہم دسمبر 2010 میں یہ جہاز زہرہ کے مدار میں داخل ہونے میں ناکام ہو گیا۔ تاہم اندازہ ہے کہ یہ جہاز اپنے زیادہ تر نظام بند کر کے چھ سال بعد دوبارہ چالو ہو کر مدار میں داخل ہونے کی کوشش کرے گا۔ اس جہاز کے مقاصد میں زیریں سرخ کیمرے کی مدد سے تصاویر لینا اور آسمانی بجلی کی موجودگی کی تصدیق اور موجودہ آتش فشانی سرگرمیوں کے وجود کا جائزہ لینا ہے۔
یورپی خلائی ایجنسی کو امید ہے کہ وہ 2014 میں بیپی کولمبو نامی مشن عطارد کو بھیجیں گے جو دو بار زہرہ کے قریب سے گذرے گا اور پھر 2020 میں عطارد کے مدار میں داخل ہو جائے گا۔
نیو فرنٹئیر پروگرام کے تحت ناسا زہرہ کو ایک جہاز بھیجے گا جو زہرہ کی سطح پر اتر کر اس کی مٹی کا عنصری اور معدنی اعتبار سے جائزہ لے گا۔ اس جہاز پر زمین میں سوراخ کرنے اور چٹانوں کا جائزہ لینے کے آلات بھی موجود ہوں گے۔وینیرا ڈی سیارچہ روس کے منصوبوں میں شامل ہے جسے 2016 میں روانہ کیا جائے گا جو خود تو زہرہ کے مدار میں رہ کر تحقیق جاری رکھے گا لیکن ایک سیارچہ سطح پر بھی بھیجے گا جو طویل عرصے تک وہاں رہ کر معلومات بھیجتا رہے گا۔ دیگر منصوبے زہرہ پر ہوائی جہاز، غبارے اور گاڑیاں بھیجنے سے متعلق ہیں۔
ناسا سیج نامی مشن کے تحت ایک خلائی جہاز زہرہ کو 2016 میں بھیجے گا۔
انسان بردار مشن
[ترمیم]1960 کی دہائی کے آخر میں اپالو پروگرام کے آلات کی مدد سے زہرہ پر ایک جہاز بھیجا جانا تھا جس پر انسان سوار ہوتے اور یہ جہاز زہرہ کے قریب سے ہو کر گذرتا۔ یہ منصوبہ اندازوں کے مطابق 1973 میں اکتوبر کے آخر یا نومبر کے شروع میں بھیجا جاتا۔ اس مقصد کے لیے سیٹرن 5 راکٹ استعمال ہوتا اور پوری پرواز ایک سال پر محیط ہوتی۔ یہ جہاز زہرہ کی سطح سے 5٫000 کلومیٹر کے فاصلے سے چار ماہ بعد گذرتا۔
تاریخی سمجھ بوجھ
[ترمیم]آسمان پر سب سے روشن جسم ہونے کی وجہ سے زہرہ کو قدیم زمانے سے انسان جانتا ہے اور انسانی ثقافت میں بھی اسے اہمیت حاصل رہی ہے۔ عہد قدیم کی بابلی تہذیب میں اس کا ذکر ملتا ہے جو 16ویں صدی قبل مسیح میں زہرہ کے مشاہدے کے بارے ہے۔
قدیم مصری زہرہ کو صبح اور شام کے ستارے کے نام سے دو الگ الگ ستارے مانتے تھے۔ قدیم یونانی بھی اسے دو الگ الگ اجرام فلکی مانتے تھے۔ تاہم بعد میں اسے ایک سیارہ تسلیم کر لیا گیا۔
ایرانی بالخصوص فارسی اساطیری کہانیوں میں زہرہ کا تذکرہ ملتا ہے۔ پہلوی ادب میں بھی اس کا تذکرہ پایا جاتا ہے۔ فارسی زبان میں زہرہ کو ناہید کہا جاتا ہے۔
مایا تہذیب میں بھی زہرہ کو بہت اہمیت حاصل رہی ہے۔ زہرہ کی حرکات پر ایک مذہبی کیلنڈر بنایا گیا تھا اور مختلف واقعات جیسا کہ جنگ وغیرہ کے بارے زہرہ کی حرکات سے پیشین گوئی کی جاتی تھی۔
قدیم آسٹریلیائی مذاہب میں بھی زہرہ کو اہمیت ملی ہوئی تھی۔
مغربی ستارہ شناسی میں زہرہ کو محبت اور زنانہ پن کی دیوی سے منسوب کیا جاتا ہے ۔ یہ دیوی جنسی زرخیزی کے لیے مشہور مانی جاتی ہے۔ ہندو ویدک نجومی زہرہ کو شکرا کے نام سے جانتے ہیں جس کا مطلب سنسکرت زبان میں پاک، صاف یا روشن وغیرہ بنتا ہے۔ جدید چینی، کوریائی، جاپانی اور ویتنامی ثقافتوں میں زہرہ دھاتی ستارے کے نام سے منسوب ہے۔
ستارہ شناسی کے اعتبار سے زہرہ کی علامت وہی ہے جو حیاتیاتی طور پر زنانہ جنس کے لیے منسوب ہے یعنی گول دائرہ اور اس کے نیچے چھوٹی سی صلیب۔
آباد کاری
[ترمیم]چونکہ زہرہ کی سطح پر موسم انتہائی شدید ہے، اس لیے موجودہ ٹیکنالوجی کی مدد سے یہاں انسان کا رہنا ممکن نہیں۔ تاہم سطح سے تقریباً 50 کلومیٹر اوپر کی فضاء زمین کی سطح جیسی ہے۔ اس جگہ ہوا کا دباؤ اور ساخت زمین کی سطح جیسی ہے۔ انہی وجوہات کی بنا پر یہاں ہوا میں معلق آبادیاں بنانے کے بارے منصوبے بنائے جا رہے ہیں۔
حوالہ جات
[ترمیم]ویکی ذخائر پر زہرہ سے متعلق سمعی و بصری مواد ملاحظہ کریں۔ |