[go: up one dir, main page]

مندرجات کا رخ کریں

ا

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
الف
صوتی نمائندگیʔ
حروف تہجی درجہ1
عددی قیمت1
فونیقی کے الفبائی مشتقات

اردو حروفِ تہجی کا پہلا حرف الف ('ا') ہے۔ اس کی دو اشکال ہیں۔ الف مقصورہ یا سادہ الف ('ا') اور الف ممدودہ ('آ')۔ حسابِ ابجد کی رو سے اس کا عدد ایک ہے۔ فارسی، عربی اور کئی دیگر زبانوں میں بھی پہلا حرف ہے۔ عربی میں تو الف مقصورہ اس چھوٹے الف کو بھی کہتے ہیں جو کچھ الفاظ کو کھینچ کر پڑھنے کے لیے لکھا جائے جیسے عیسیِِٰ، موسیٰ وغیرہ مگر اردو میں یہ ساکن یا متحرک بھی ہو سکتا ہے جیسے 'اگر'، 'مگر'، 'نان' وغیرہ۔ ↔الف سے ايک نام اللہ بھی ہوتا ہے •

فائل:Urduhuroof.png
اردو حروفِ تہجی


لفظ میں مقام: الگ آخر میں درمیان میں شروع میں
شکل: ا ـا ـا ا

اردو میں الف چار طرح پر پایا جاتا ہے۔ مجرد، مہموز، ہمزہ اور ممدودہ۔

*الفِ مجرد:*

یہ سادہ الف ہے جو سب سے زیادہ پائی جانے والی شکل ہے۔ الفاظ کے شروع، وسط اور آخر تینوں میں آتا ہے۔ مثلاً شروع میں

امید، احساس، اجر، اثر ، امنگ، اٹل وغیرہ

درمیان

راز، سلام، ناراض، پاکستان وغیرہ

آخر میں

دعا، روا، پیدا، جینا، کھیلنا وغیرہ۔

شروع میں جب یہ الف آتا ہے تو اردو زبان کے اس قاعدے کے مطابق کہ ہر لفظ کے پہلے حرف پر ضرور بالضرور حرکت ہو گی، متحرک ہوتا ہے۔ امید میں اس پر پیش ہے، احساس میں زیر، اجر میں زبر۔ قس علیٰ ہٰذا۔

درمیان اور آخر ہر دو صورتوں میں یہ ساکن ہوتا ہے۔ اور پہلا ساکن یعنی مجزوم۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ الف اردو میں موقوف نہیں ہو سکتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ الف سے پہلے بھی کوئی ساکن حرف موجود ہو۔ یہ جب بھی ساکن کے طور پر آئے گا تو پہلا ساکن خود ہو گا۔ بعد میں چاہے جتنے مرضی ساکن یعنی موقوف حروف آ جائیں۔ جیسے راست میں الف رے کے بعد پہلا ساکن یعنی مجزوم ہے اور اس کے بعد دو ساکن یعنی موقوف آئے ہیں۔

*الفِ مہموز:*

یہ وہ الف ہے جو جرأت اور برأت جیسے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اردو میں ہمیشہ کسی عربی الاصل لفظ کے درمیان ہی ملے گا اور اس پر زبر ہو گی۔ اس کے علاوہ اردو میں اس کی کوئی صورت نہیں۔

جرأت میں الف ساکن نہیں ہے بلکہ اس پر زبر ہے۔ ہم اس لفظ کے دو ٹکڑے کر کے اس بات کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں:

جُر + اَت = جُرأت

اسی طرح برأت کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہو جانے کے ہیں۔

مہموز کا مطلب ہے ہمزہ والا۔ یعنی وہ الف جس کے اوپر چھوٹا سا ہمزہ ہو۔

مدعا یہ کہ الفِ مہموز اردو زبان میں صرف کسی لفظ کے درمیان ہی آئے گا اور ہمیشہ اس پر زبر ہو گی۔ الفِ مہموز نہ ساکن ہو سکتا ہے اور نہ اس پر زیر یا پیش وغیرہ ہو سکتی ہے۔ ساکن ہو گا تو الفِ مجرد کی طرح لکھا جائے گاجسے ہم نے اوپر دیکھا۔ زیر یا پیش کی حرکت ہو گی تو ہمزہ کی صورت میں لکھا جائے گا جسے ہم آگے دیکھیں گے۔

*ہمزہ:*

ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے جو وہاں آتا ہے جہاں الف کی آواز کسی لفظ کے درمیان ہو اور اس پر زیر یا پیش ہو۔ ہم نے ابھی ابھی سیکھا کہ اگر درمیان کے الف پر زبر ہو گی تو اسے ہم الفِ مہموز کی صورت میں لکھیں گے۔ لیکن اگر زبر یا پیش ہو گی تو پھر وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔

مثلاً

قائم = قا + اِم

دائر = دا + اِر

مسئول = مس + اُول

رؤف = رَ + اُوف

گئی = گَ + اِی

رائے = را + اِے

مرکبِ اضافی میں اگر مضاف کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو قاعدے کے مطابق زیر لگانے کی بجائے ہمزہ لکھ کر بڑی یے لکھ دیتے ہیں۔ جیسے

روئے سخن = رُو + اے

دعائے خیر = دعا + اے

اگر ہائے مختفی یعنی چھوٹی گول ہ یا چھوٹی ی آخر میں ہو تو  ہمزہ لکھ کر زیر دیتے ہیں۔ جیسے

ہدیۂِ نعت = ہد + یہ + اے

گرمئِ بازار = گر + می + اے

البتہ اگر بڑی یے آخر میں آئے تو صرف ہمزہ کا اضافہ کرتے ہیں کیونکہ اضافت والی یے پہلے ہی سے موجود ہے۔ جیسے

مئے ناب = مَ + اے

عربی میں جب الف موقوف ہوتا ہے تو اسے ہمزہ سے ظاہر کرتے ہیں۔ جیسے ماء، شاء، انبیا وغیرہ میں۔ اردو  کے مستند تلفظ اور ٹکسالی لہجے میں، جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا، الف موقوف یعنی دوسرے ساکن کے طور پر کبھی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ پہلا ساکن ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں انبیا، اولیا وغیرہ کو ہمزہ کے بغیرلکھا جاتا ہے۔ البتہ بعض عربی الاصل تراکیب میں اس کی یادگاریں باقی رہ گئی ہیں۔ جیسے ان شاء اللہ، ماشاء اللہ وغیرہ۔

*الفِ ممدودہ:*

ممدودہ کے معنی ہیں کھینچا ہوا۔ مد کے معانی ہیں کھینچنا۔ الفِ ممدودہ وہ ہے جس پر مد یعنی کھنچاو موجود ہو۔ یہ درحقیقت ایک الف نہیں بلکہ دو الف کا مجموعہ ہے۔

سا، کا، گا، لا، جا وغیرہ میں الف سے پہلے س، ک، گ، ل اور ج موجود ہیں جو متحرک ہیں اور الف ساکن ہے۔ اگر پہلا حرف بھی الف ہی ہو تو دو الف ہو جائیں گے جن میں سے پہلا متحرک اور دوسرا ساکن ہو گا۔ یہ الفِ ممدودہ ہے اور اسے الف پر مد ڈال کر ظاہر کرتے ہیں۔

ا + ا = آ

اردو میں الفِ ممدودہ ہمیشہ الفاظ کے شروع میں آتا ہے۔ درمیان یا آخر میں نہیں پایا جاتا۔ اس کا وزن بھی دو حروف کے برابر ہی شمار کیا جاتا ہے نہ ایک الف کے برابر۔ مثلاً

آج = اَ + ا + ج

یہ سہ حرفی لفظ ہے۔ یعنی تین حروف والا۔ پہلا الف متحرک، دوسرا مجزوم اور تیسرا جیم موقوف۔ فاع کے وزن پر۔

آغاز = ا+ ا+ غا + ز

یہ پنج حرفی لفظ ہے۔ مفعول کے وزن پر۔

*خلاصہ:*

مدعا یہ کہ الف اردو میں اگر ساکن ہو تو درمیان یا آخر میں ہو گا اور ہمیشہ کسی حرکت کے بعد پہلا ساکن یعنی مجزوم ہی ہو گا۔ موقوف کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں اسے الفِ مجرد یا سادہ الف سے ظاہر کریں گے۔ اگر متحرک ہو گا اور لفظ کے شروع میں ہو گا تو اسے بھی سادہ ہی لکھا جائے گا۔ اگر کسی لفظ کے درمیان متحرک ہو گا تو زبر کی حرکت کے ساتھ الفِ مہموز یعنی ہمزہ والا الف لکھا جائے گا۔ پیش اور زیر کے ساتھ خود ہمزہ ڈال دیا جائے گا۔ آخر میں متحرک ہو ہی نہیں سکتا۔ دو الف اکٹھے آئیں گے تو انھیں الفِ ممدودہ کے ساتھ یعنی الف پر مد ڈال کر ظاہر کیا جائے گا۔[1]

حرف ا
یونیکوڈ نام ARABIC LETTER ALIF
علامتی رمز اعشاری اساس سولہ
یونیکوڈ 1575 U+0627
یو ٹی ایف-8 216 167 D8 A7
عددی حرف حوالہ ا ا

مزید

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]

بیرونی روابط

[ترمیم]