آئس برگ
آئس برگ (iceberg) وہ برفانی تودے جوکسی گلیشئیر یا قطبی برفانی چادر سے ٹوٹ کر سمندر میں بہنے لگتے ہیں۔ یہ تودے سمندری دھاروں کی بدولت قطبین سے عام بحری راستوں میں پہنچ جاتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ آئس برگ قطبین سے بہت دور بھی مل جاتے ہیں۔ جب کوئی گلیشئیر سمندر میں اترتا ہے اور گہرے سمندر کی جانب تیزی سے سفر کرتا ہے تو اس کے اطرافی کنارے ٹوٹنے لگتے ہیں اور یہ ٹوٹے ہوئے برفانی تودے ' آئس برگ " کی صورت میں سمندر میں بہنے لگتے ہیں۔ چونکہ یہ گلیشئیر کے مقابلے میں بہت ہلکے پھلکے ہوتے ہیں اس لیے سمندری دھارے انھیں تیزی سے بہاتے ہوئے عام بحری راستوں میں لے آتے ہیں۔ ان تودوں کا صرف 1/9 حصہ پانی سے اوپر اور باقی آٹھ حصے پانی میں چھپے ہوئے ہوتے ہیں۔ اکثر آئس برگ الٹ کر اوندھے ہو جاتے ہیں یا پھر ترچھے ہو جاتے ہیں کیونکہ بہاؤ کے دوران پگھلاو کا عمل بھی جاری رہتا ہے۔ اور کبھی سمندری موجیں اتنی تیز و تند بھی ہوتی ہیں کہ آئس برگ اپنا توازن کھو بیٹھتے ہیں۔
قطبین کی برفانی چادریں بہتے ہوئے ٹوٹتی رہتی ہیں۔ یہ ٹوٹے ہوئے حصے آئس برگ بن جاتے ہیں۔ انتشار کا یہ عمل اس دباؤ کی وجہ سے بھی وقوع پزیر ہوتا ہے جو پانی اوپر کی جانب برفانی چادر پر ڈالتا ہے۔
آئس برگ ، خاص طور پر گلیشئیر سے ٹوٹنے والے ، اپنے ساتھ چھوٹے چھوٹے ریزوں کا وسیع ذخیرہ بھی لے آتے ہیں جو سمندر کی سطح پر بکھیرتے رہتے ہیں۔
سمندر کی تہ صاف کرنے والی مشینوں میں پائے جانے والے ' آئس برگ ' کے مادوں سے پتہ چلا ہے کہ ' آئس برگ ' عموما بہت طویل سفر کیا کرتے ہیں۔[1]
مشہور زمانہ برطانوی بحری جہاز ' ٹائی ٹینک بھی بحر اوقیانوس میں ایک 'آئس برگ ' سے ٹکرا کر غرق ہوا تھا۔
حوالہ جات
[ترمیم]- ↑ ماہنامہ معلومات۔ ص835،ج 26-سید قاسم محمود، ستار طاہر- 4 شارع فاطمہ جناح، لاہور