[go: up one dir, main page]

مندرجات کا رخ کریں

معاشیات

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے

معاشیات یا اقتصادیات (Economics) معاشرتی علوم (Social Sciences) کی ایک اہم شاخ ہے جس میں قلیل مادی وسائل و پیداوار کی تقسیم اور ان کی طلب و رسد کا مطالعہ کیا جاتا ہے۔ عربی اور فارسی میں رائج اصطلاح اقتصادیات اردو میں معاشیات کے مترادف کے طور پر بھی استعمال ہوتی رہی ہے۔ معاشیات کی ایک جامع تعریف جو روبنز (Lionel Robbins) نے دی تھی کچھ یوں ہے کہ 'معاشیات ایک ایسا علم ہے جس میں ہم انسانی رویہ کا مطالعہ کرتے ہیں جب اسے لامحدود خواہشات اور ان کے مقابلے میں محدود ذرائع کا سامنا کرنا پڑے۔ جبکہ ان محدود ذرائع کے متنوع استعمال ہوں'۔ معاشیات آج ایک جدید معاشرتی علم بن چکا ہے جس میں نہ صرف انسانی معاشی رویہ بلکہ مجموعی طور پر معاشرہ اور ممالک کے معاشی رویہ اور انسانی زندگی اور اس کی معاشی ترقی سے متعلق تمام امور کا احاطہ کیا جاتا ہے اور اس میں مستقبل کی منصوبہ بندی اور انسانی فلاح جیسے مضامین بھی شامل ہیں جن کا احاطہ پہلے نہیں کیا جاتا تھا۔ معاشیات سے بہت سے نئے مضامین جنم لے چکے ہیں جنھوں نے اب اپنی علاحدہ حیثیت اختیار کر لی ہے جیسے مالیات، تجارت اور انتظام۔ معاشیات کی بہت سی شاخیں ہیں مگر مجموعی طور پر انھیں جزیاتی معاشیات (Microeconomics) اور کلیاتی معاشیات (Macroeconomics) میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔

تعریف

[ترمیم]

معاشیات سے مراد وہ سائنس ہے جو تبادلے سے متعلق قوانین کو کنٹرول کرتی ہے۔ دوسرے الفاظ میں اس کا مطلب یہ نکلتا ہے کہ قوانین بنانے والے لین دین اور دولت کی منتقلی پر کنٹرول رکھتے ہیں۔

Economics is the Science which treats of the Laws which govern the Relations of Exchangeable Quantities (Exchangeable Quantities means wealth)۔[1]

قانون حقوق متعین کرتا ہے۔ معاشیات حقوق کا تبادلہ طے کرتی ہے۔

Law is the Science of Rights. Economics is the Science of the Exchanges of Rights[2]

مقاصد

[ترمیم]

قدیم ادوار میں مالیاتی نظام حکومت کی ذمہ داریوں کی طرح سیدھا سادہ ہوتا تھا۔ عام طور پر حکومت کی ذمہ داریاں محدود ہوتی تھیں۔ اس لیے محصولات میں کوئی پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں۔ محصولات کا بڑا حصہ زمین کی لگان اور اس کے محصول پر مشتمل ہوتا تھا۔ جب کہ ذرخیز علاقوں پر عام طور زیادہ محصول ہوتا تھا یا ان پر کچھ خصوصی محصول کسی خاص مد میں لگائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جزیہ، تجارت اور وراثت پر بھی محصول لگائے جاتے تھے۔ جو کم و بیش روم، ایران و مصر اور دوسرے علاقوں میں قبل اسلام یہی محصولات مختلف شکلوں میں عائد کیے جاتے تھے۔

قدیم زمانے میں ضرورتیں مختصر اور سادہ ہوا کرتی تھیں، لیکن تہذیب و تمد ن کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور نیرنگی پیدا ہوتی گئی۔ بنیادی طور پر ہمیں بھوک مٹانے کے لیے غذا، ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیے مکان درکار ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کو بہت سی ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو آرام و آسائش بہم پہنچاتی ہیں اور تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ مثلأئ صوفہ، ریڈیو، ٹیلی ویژ ن، فریج، ایر کنڈیشنز، موٹر سائیکل اور کار وغیرہ ہیں۔ چنانچہ ان حاجات کو پورا کرنے کے لیے انسان محنت کرتا ہے اور دولت کماتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسان کھیتوں میں، مزدور کارخانوں میں، کلرک دفتروں میں سرگرم عمل ہیں۔ غرض ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل، دھوبی اور نائی ہر شخص اپنا کام کر رہا ہے تاکہ روپیہ حاصل کرکے ضرورت کی اشیاء حاصل کرسکے۔ انسان کی اس جدوجہد کا اور اس کی کوششوں کا تعلق معاشیات سے ہے۔

دراصل انسان کی خواہشات بے شمار ہیں لیکن انھیں پورا کرنے کے ذرائع تھوڑے ہیں۔ لہذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو اس قلیل ذرائع سے کیسے پورا کرے۔ گویا اسے بے شمار خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنی پڑتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے اس پہلو کے مطالعہ کا نام معاشیات ہے۔

حاجات کی کثرت اور وسائل کی قلت کے باعث دنیا کی بیشتر آبادی مسائل سے دوچار ہے۔ مثلا ئئغربت، جہالت، بیماری، قحط، بے روزگاری اور افراط زر وغیرہ ہیں۔ چنانچہ معاشی ماہرین ان مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور معاشی ترقی پر زور دیتے ہیں، ایسی تجویزیں پیش کرتے ہیں جس سے ملک میں اشیاء کی پیداوار بڑھے، روزگار ملے اور لوگوں میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو، خوش حالی کا معیار بلند ہو اور ان کی ضرورتیں احسن طریقے سے پوری ہوں۔ لہذا ضروری ہے کہ معاشیات کے جدید اصولوں اور نظریات سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔ تاکہ اشیاء کی پیداوار بڑھے، لوگوں کو روزگار ملے اور لوگوں کو ضرورت کی اشیاء ملیں اور معاشرہ خوش حالی کی طرف گامزن ہو۔

انسان کے معاشی مسئلہ کے مختلف پہلوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نظام بنایا جائے کہ کس طرح تمام انسانوں کو ان کی ضروریات زندگی بہم پہچانے کا انتظام ہو اور کس طرح معاشرے میں ہر فرد اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق ترقی کرکے اپنی شخصیت کو نشوو نمادینے اور اپنی لیاقت کو درجہ کمال پر پہنچانے کے مواقع حاصل کرے۔

معاشی نظام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو وہ بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو کہ مرد بلا امتیاز و فرق کے کم از کم اپنا سامان حیات ضرور میسر ہو۔ جس کے بغیر عام طور پر ایک انسان اطمینان کے ساتھ زندہ نہیں ر ہ سکتا اور نہ ہی اپنے فرائض و واجبات ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر سکتا ہے۔ جو مختلف حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر ایک فرد کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں خوراک لباس اور مکان کے علاوہ علاج، تعلیم اور روزگار کا مناسب انتظام ہو اور کوئی فرد ان بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے اور یہی ایک اسلامی معاشرے کا مقصد ہے۔== مقاصد == قدیم ادوار میں مالیاتی نظام حکومت کی ذمہ داریوں کی طرح سیدھا سادہ ہوتا تھا۔ عام طور پر حکومت کی ذمہ داریاں محدود ہوتی تھیں۔ اس لیے محصولات میں کوئی پیچیدگیاں نہیں ہوتی تھیں۔ محصولات کا بڑا حصہ زمین کی لگان اور اس کے محصول پر مشتمل ہوتا تھا۔ جب کہ ذرخیز علاقوں پر عام طور زیادہ محصول ہوتا تھا یا ان پر کچھ خصوصی محصول کسی خاص مد میں لگائے جاتے تھے۔ اس کے علاوہ جزیہ، تجارت اور وراثت پر بھی محصول لگائے جاتے تھے۔ جو کم و بیش روم، ایران و مصر اور دوسرے علاقوں میں قبل اسلام یہی محصولات مختلف شکلوں میں عائد کیے جاتے تھے۔

قدیم زمانے میں ضرورتیں مختصر اور سادہ ہوا کرتی تھیں، لیکن تہذیب و تمد ن کے ساتھ ساتھ ان میں اضافہ اور نیرنگی پیدا ہوتی گئی۔ بنیادی طور پر ہمیں بھوک مٹانے کے لیے غذا، ،تن ڈھانپنے کے لیے کپڑا اور رہنے کے لیے مکان درکار ہے۔ لیکن اس کے علاوہ انسان کو بہت سی ایسی چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے جو آرام و آسائش بہم پہنچاتی ہیں اور تفریح کا سامان مہیا کرتی ہیں۔ مثلأئ صوفہ، ریڈیو، ٹیلی ویژ ن، فریج، ایر کنڈیشنز، موٹر سائیکل اور کار وغیرہ ہیں۔ چنانچہ ان حاجات کو پورا کرنے کے لیے انسان محنت کرتا ہے اور دولت کماتا ہے۔ اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ کسان کھیتوں میں، مزدور کارخانوں میں، کلرک دفتروں میں سرگرم عمل ہیں۔ غرض ڈاکٹر، پروفیسر، وکیل، دھوبی اور نائی ہر شخص اپنا کام کر رہا ہے تاکہ روپیہ حاصل کرکے ضرورت کی اشیاء حاصل کرسکے۔ انسان کی اس جدوجہد کا اور اس کی کوششوں کا تعلق معاشیات سے ہے۔

دراصل انسان کی خواہشات بے شمار ہیں لیکن انھیں پورا کرنے کے ذرائع تھوڑے ہیں۔ لہذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے کہ وہ اپنی خواہشات کو اس قلیل ذرائع سے کیسے پورا کرے۔ گویا اسے بے شمار خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنی پڑتی ہے۔ انسانی طرز عمل کے اس پہلو کے مطالعہ کا نام معاشیات ہے۔

حاجات کی کثرت اور وسائل کی قلت کے باعث دنیا کی بیشتر آبادی مسائل سے دوچار ہے۔ مثلا ئئغربت، جہالت، بیماری، قحط، بے روزگاری اور افراط زر وغیرہ ہیں۔ چنانچہ معاشی ماہرین ان مسائل پر غور و فکر کرتے ہیں اور انھیں حل کرنے کے لیے معاشی منصوبہ بندی کرتے ہیں اور معاشی ترقی پر زور دیتے ہیں، ایسی تجویزیں پیش کرتے ہیں جس سے ملک میں اشیاء کی پیداوار بڑھے، روزگار ملے اور لوگوں میں دولت کی تقسیم منصفانہ ہو، خوش حالی کا معیار بلند ہو اور ان کی ضرورتیں احسن طریقے سے پوری ہوں۔ لہذا ضروری ہے کہ معاشیات کے جدید اصولوں اور نظریات سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے لیے کوشش کی جائے۔ تاکہ اشیاء کی پیداوار بڑھے، لوگوں کو روزگار ملے اور لوگوں کو ضرورت کی اشیاء ملیں اور معاشرہ خوش حالی کی طرف گامزن ہو۔

انسان کے معاشی مسئلہ کے مختلف پہلوں کو سامنے رکھتے ہوئے ایسا نظام بنایا جائے کہ کس طرح تمام انسانوں کو ان کی ضروریات زندگی بہم پہچانے کا انتظام ہو اور کس طرح معاشرے میں ہر فرد اپنی قابلیت اور استعداد کے مطابق ترقی کرکے اپنی شخصیت کو نشوو نمادینے اور اپنی لیاقت کو درجہ کمال پر پہنچانے کے مواقع حاصل کرے۔

معاشی نظام کا سب سے بڑا مقصد یہ ہے کہ معاشرے کے ہر فرد کو وہ بچہ ہو یا بوڑھا، عورت ہو کہ مرد بلا امتیاز و فرق کے کم از کم اپنا سامان حیات ضرور میسر ہو۔ جس کے بغیر عام طور پر ایک انسان اطمینان کے ساتھ زندہ نہیں ر ہ سکتا اور نہ ہی اپنے فرائض و واجبات ٹھیک طرح سے ادا نہیں کر سکتا ہے۔ جو مختلف حیثیت سے اس پر عائد ہوتے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ معاشرے کے ہر ایک فرد کے لیے کسی نہ کسی درجہ میں خوراک لباس اور مکان کے علاوہ علاج، تعلیم اور روزگار کا مناسب انتظام ہو اور کوئی فرد ان بنیادی ضروریات سے محروم نہ رہے اور یہی ایک اسلامی معاشرے کا مقصد ہے۔]][[

معاشی ارتقا

[ترمیم]

قدیم ادوار میں سونے اور چاندی کے سکے ہوتے تھے۔ جو دنیا میں محدود مقدار میں تھے، اس لیے زر Currencyکی قدر میں استحکام تھا اور اس وجہ سے دنیا ہمیشہ تفریق زر Deflation کا شکار رہی تھی۔ اس وقت جب کہ سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کر رہا تھا، تو اسلام نے ایک طرف زکواۃ کو فرض کر کے اور دوسرے طرف رضاکارانہ طور پر دولت پھیلانے کی تلقین کرکے سودIntrest پر ضرب لگائی۔ اس سے نہ صرف معاشرے میں دولت پھیل جاتی تھی بلکہ لوگوں کے پاس پیسہ آجانے سے تجارت و کاروبار میں ترقی ہوجاتی اور لوگوں کو روزگار مل جاتا تھا، جواب بھی نہایت راست ا قدام ہے۔

مگر بڑھتی ہوئی آبادی اور تیز رفتار ترقی کی وجہ سے دنیا تفریق زر اور کسادبازاری کا شکار ہونے لگی۔ کیوں کہ دنیا میں سونا محدود مقدار میں تھا، جس کی مقدار مزید بڑھ نہیں سکتی تھی اور اس کے متبادل کے طور پر کاغذی زر تخلیق کیا گیا۔ جو ابتدا میں سونے کے بدلے جاری کیا گیا تھا، اس لیے اس کی قدر مستحکم تھی۔ مگر جلد ہی اس کا تعلق سونے سے ٹورنا پڑا، اب اس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے۔

دنیا میں جہاں مختلف میدانوں میں ترقی ہوئی ہے اور مختلف ارتقائی مراحل گذر ی ہے، وہاں آج کی معاشی دنیا بھی بدل چکی ہے۔ آج کی معاشی دنیا پہلے کی طرح سادہ نہیں رہی ہے۔ زماں اور مکاں اور عرف و عادۃ کی تبدیلوں کے ساتھ اس نے مختلف ارتقائی مرحلے طے کیے ہیں اور اب یہ عہد گذشتہ کی نسبت بہت زیادہ پیچیدہ اور تیز رفتار ہو گئی ہے۔ اس لیے آج معاشی دنیا کل کی نسبت بہت کچھ بدل چکی ہے۔ پہلے سود معاشرے میں عدم توازن پیدا کرتا تھا۔ جب کہ آج کی جدید معشیت میں تیز رفتار ترقی اور وقت کے ساتھ گرتی قدر کی وجہ سے قرض لینے والا فائدے میں رہتا ہے۔

آج کا معاشی نظام عہدوسطیٰ کے مقابلے میں بہت مختلف ہے۔ پہلے صرف سونے کو زر کی حیثیت حاصل تھی، مگر اب اس کی جگہ کاغذی زر نے لے لی ہے، جس کی قدر وقت کے ساتھ گرتی رہتی ہے اور قیمتوں میں اضافے کا عمل مسلسل جاری رہتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج دنیا بھر کے لوگ اپنا پیسہ جائداد یا اس طرح کی خریداری میں لگاتے ہیں اور کاروبار کے لیے قرض کو ترجیح دیتے ہیں اور واپسی کے وقت اصل کے مقابلے میں زائد رقم خوشی خوشی ادا کرتے ہیں، کیوں کہ قرض لیتے وقت جو زر کی قدر تھی وہ ادائیگی کے وقت گھٹ چکی ہوتی ہے۔ یہی وجہ ہے سود کے خلاف جتنے دلائل دیے جاتے تھے وہ جدید معاشی نظام پر صادق نہیں آتے ہیں۔ کیوں کہ زر کی وقت کے ساتھ گرتی قدر نے سود کے خلاف تمام دلائل بیکار کردیے ہیں اور سود پوری طرح معاشی معاشرے میں رائج ہو چکا ہے۔ آج ہم سود کے بغیرمعیشت کا سوچ ہی نہیں سکتے ہیں۔ حقیقت میں سودی نظام صرف بینکاریBanking کے امور تک محدود نہیں ہے۔ بلکہ دوسرے معاشیEcnomic & Manitry امور مثلأئ زر کی تخلیقCapital Formation، کاغذی زر، ادائیگیوں کا توازن Balance of Payments، قرضہ جات، معاشی حکمت عملیوں کے مطابق زر کو بازار میں پھیلانے اور کھینچنے اور روزگار وغیرہ بھی اس سے وابستہ ہیں۔

معاشیات کا ارتقا اور تاریخ

[ترمیم]

اگرچہ معاشیات کی تحریریں کافی قدیم زمانے سے ملتی ہیں مگر وہ کتاب جو باقاعدہ معاشیات کی پہلی طبع شدہ کتاب سمجھی جاتی ہے، آدم سمتھ (Adam Smith) کی مشہور کتاب 'دولتِ اقوام' (Wealth of Nations) ہے جو 1776 میں چھپی تھی۔ اس وقت معاشیات کو بطور علاحدہ مضمون کے شناخت نہیں کیا جاتا تھا مگر 1876ء سے بھی پہلے مختلف جریدوں میں معاشیات سے متعلق تحریریں موجود ہیں مثلاً تھامس من (Thomas Munn) کے بین الاقوامی تجارت سے متعلق مضامین کا تعلق سولہویں صدی سے ہے۔ معاشی نظریات اسلامی دور میں بھی موجود تھے اور یونانی دور میں بھی مگر علاحدہ مضمون کی حیثیت سے ترقی اسے اٹھارویں صدی میں ہی آ کر ہوئی۔

معاشیات کو اس کا علاحدہ نام (انگریزی میں Economics۔ فرانسیسی میں Sciences économiques) سنہ 1876ء کے کچھ بعد ملا۔ پہلی کتاب جو باقاعدہ اس نام کے ساتھ چھپی وہ الفرڈ مارشل (Alfred Marshall) کی کتاب اصولِ معاشیات (Principles of Economics ) تھی جو 1890ء میں طبع ہوئی۔ مگر معاشی نظریات کو ہم تین بنیادی ادوار میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلے دور میں عموماً یونانی، رومی اور عربی (اسلامی) نظریات شامل سمجھے جاتے ہیں۔ دوسرے دور میں چودھویں صدی کے بعد سے اٹھارویں صدی کے نظریات کو داخل کیا جاتا ہے جیسے تاجرانہ نظریات (mercantilist views) اور تیسرے دور میں آدم سمتھ اور اس کے بعد کے نظریات کو شامل کیا جاتا ہے۔ تیسرا دور ہی اصل میں معاشیات کی صحیح معنیٰ میں ترقی کا دور ہے جس میں جدید معاشیات کی بنیاد پڑی اور معاشیات کو ایک الگ مضمون کی حیثیت دی گئی۔ اسی تیسرے دور میں مختلف مکاتبِ فکر ن جنم لیا مثلاً کلاسیکی، نو کلاسیکی وغیرo

معاشیات کی بنیادی شاخیں

[ترمیم]

معاشیات کے علم کو بطور مجموعی دو بنیادی شاخوں میں تقسیم کیا جاتا ہے۔

اس میں انفرادی درجہ پر معاشی تجزیہ کیا جاتا ہے جیسے کسی شخص، کارخانہ، شراکت، صارف یا گھر وغیرہ کا تجزیہ کیا جائے۔ اس کی بہت سی شاخیں ہیں مثلاً رویہ صارف، فلاحی معاشیات، تجارتی معاشیات، صنعتی تنظیم، معاشیاتِ خاندان وغیرہ۔

اس میں معاشرہ کا اجتماعی درجہ پر تجزیہ کیا جاتا ہے جیسے کسی ملک کی آمدنی اور شرحِ نمو یا بین الاقوامی تجزیات وغیرہ۔ اس کی بہت سی شاخیں ہیں مثلاً معاشی ترقی، بین الاقوامی معاشیات، معاشیاتِ آبادی وغیرہ۔

اہم مکاتب فکر

[ترمیم]

معاشی نظریات کا تعلق نظریات کے ساتھ ہے وقت کے ساتھ نہیں مثلاً کلاسیکی معاشی نظریات دو سو سال پہلے بھی تھے اور آج بھی کوئی ویسے نظریات رکھے گا تو اسے کلاسیکی ماہرِ معاشیات ہی کہا جائے گا۔ نظریات کے لحاظ سے جدید دور کی معاشیات کو عموماً چند نظریاتی جماعتوں میں تقسیم کیا جاتا ہے جو درج ذیل ہیں۔

کلاسیکی معاشیات

[ترمیم]

اٹھارویں اور انیسویں صدی میں معاشیات کے بارے میں مخصوص نظریات رائج تھے۔ اس وقت معاشیات کو معیشتِ سیاسی (Political economy) کہا جاتا تھا۔ اس کے ابتدائیییییی دور میں یہ وہ وقت تھا جب معاشیات کو ابھی علاحدہ مضمون کی حیثیت حاصل نہیں ہوئی تھی اور معاشیات کے نئے نظریات دینے والوں میں نہ صرف معاشیات کے ماہر بلکہ فلسفی، ریاضی دان، علومِ سیاسیہ کے ماہر اور دیگر مفکرین شامل تھے۔ معاشی نظریات یہ تھے کہ معیشت کو منڈیاں چلاتی ہیں اور معیشت میں خود بخود ایک توازن پیدا ہو جاتا ہے یا متوازن کیفیت کی طرف معاشی متغیرات کا رحجان ہوتا ہے۔ وہ سمجھتے تھے کہ ہر چیز کی ایک قدر ہوتی ہے اور یہ قدر یا قیمت ہی ہے جس کی وجہ سے معیشت چلتی ہے اور یہی میکانیاتِ قیمت ہی ہے جس کی وجہ سے صرف، پیداوار، طلب و رسد جنم لیتی ہیں۔ معیشت میں خود بخود مکمل روزگار جنم لے سکتا ہے اور رسد اپنی طلب خود پیدا کر لیتی ہے۔ بعض مفکرین یہ بھی سمجھتے تھے کہ اشیاء کی قیمتیں اس بات سے متعین ہوتی ہیں کہ ان پر محنت کے کتنے گھنٹے یا وقت صرف ہوا ہے۔ وہ یہ بھی سمجھتے تھے کہ حکومت یا کسی بھی طاقت کی معیشت میں مداخلت نہیں ہونا چاہیے اور معیشت کو مالیاتی تدابیر(Fiscal policy) کی نسبت قدری تدابیر (Monetary policy) سے اختیار میں لایا جا سکتا ہے۔
کلاسیکی ماہرینِ معاشیات میں آدم سمتھ، جون سٹوارٹ مِل، تھامس مالتھس اور ڈیوڈ ریکارڈو جیسے نام شامل ہیں۔ اس سلسلے میں سب سے مشہور کتاب آدم سمتھ کی 'دولتِ اقوام' کو سمجھا جاتا ہے جو1776ء میں چھپی تھی۔

نو کلاسیکی معاشیات

[ترمیم]

کلاسیکی معاشیات میں یہ سمجھا جاتا تھا کہ بنیادی طور پر معاشیات دولت کا علم ہے مگر نو کلاسیکی معاشیات میں یہ بات سامنے آتی ہے کہ معاشیات دولت کا نہیں بلکہ انسانی رویہ سے تعلق رکھنے والا علم ہے۔ یہ انسان کے معاشی رویہ کا تجزیہ کرتا ہے جس میں انسان کی خواہشات بہت زیادہ ہوتی ہیں اور ان کو حاصل کرنے کے ذرائع کمیاب ہوتے ہیں۔ اسی وجہ سے انسان کو ان محدود ذرائع کے استعمال کو چننا ہوتا ہے۔ زیادہ اہم خواہشات یقیناً پہلے پوری ہوتی ہیں۔ یعنی دولت کو صرف اس لیے زیرِ بحث لایا جاتا ہے کہ وہ انسانی ضرورتوں کو پورا کرنے کا ایک ذریعہ ہے۔ جدید معاشیات کی بنیاد بھی انہی نوکلاسیکی معاشیاتی نظریات پر ہے جس میں وسائل و ذرائع کے مستعد ترین (efficient) استعمال پر بحث ہوتی ہے۔ یعنی انسانی فیصلے لاگت اور قیمت پر انحصار کریں گے۔ نوکلاسیکی نظریات کے مطابق بنیادی بات یہ ہے کہ قیمت، پیداوار اور آمدنی کی تقسیم جیسے فیصلے رسد و طلب کی مدد سے ہوں گے۔ صارف کی کوشش یہ ہوگی کہ افادہ کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے اور شرکت (Firm) کا مطمعِ نظر اپنے سرمایہ پر منافع زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا ہے۔
مجموعی طور پر نوکلاسیکی معاشیات کی بنیاد تین مفروضات پر ہے۔

  • انسان عاقلانہ (Rationally) انداز میں اپنے فیصلے کرتا ہے۔ اور اس کے ذہن میں ان فیصلوں کے ممکنہ نتائج کے بارے میں کچھ قدر و قیمت متعین ہوتی ہے۔
  • صارف کی کوشش یہ ہوگی کہ افادہ کو زیادہ سے زیادہ حاصل کیا جائے اور شرکت (Firm) کا مطمعِ نظر اپنے سرمایہ پر منافع زیادہ سے زیادہ حاصل کرنا ہے۔
  • انسان اپنے فیصلے آزادانہ طور پر متعلقہ مواد اور مکمل معلومات کی بنیاد پر کرتے ہیں۔

نوکلاسیکی معاشیات دانوں میں ابتدائیییییی ناموں میں ولیم جیون (William Stanley Jevons)، کارل مینجر (Carl Menger)، لیوں والرس (Leon Walras)، جیریمی بینتہم (Jeremy Bentham) اور الفریڈ مارشل (Alfred Marshall) جیسے نام شامل ہیں۔

فارش اے نورتاریخ دان اور ماہرِ سیاسیات ہیں۔ ان کا تعلق ملائشیا سے ہے اور وہ برلن کے زینٹرم ماڈرنر اوریئنٹ میں رہتے ہیں۔ وہ ایک تحقیقی ویب گاہ www.othermalaysia.org۔ کے بانیوں میں بھی شامل ہیں۔

اسلام اوراس دور میں تجارت کی بات کرنا تو جیسے فیشن بن گیا ہے۔ تاہم اسلام اور اقتصادیات، کاروبار، بنکاری، مالیات اور انٹرنیٹ (Internet) پر خصوصی طور پرمسلمانوں کے لیے بنائی گئی مصنوعات کی فروخت پر ایک نظر ڈالنے سے پتہ چلتا ہے کہ مسلم تجارت تیزی سے فروغ پا رہی ہے۔ اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ پچھلے دو عشروں سے ہو رہا ہے اور شائد ہی کسی نے اس پر توجہ دی ہو۔

60ء کے عشرے میں مسلم دنیا کئی طرح کے احیاء کے تجربے سے گذر رہی تھی۔ بلا مبالغہ اس کرہ ارض پر موجود مسلم اکثریت والے ہر ملک کو نو آبادیاتی نظام کے بعد حکمرانی کے بحران سے گذرنا پڑا جب مسلم معیشتوں کو یہ احساس ہوا کہ انھیں ہر شے باہر سے درآمد کرنے والی نو آبادیاتی دور کی روش کوچھوڑنا ہوگا۔ چنانچہ نو آبادیاتی دور کے ترقیاتی ماڈل کو فی الفور ترک کر دیا گیا۔ 60ء کی دہائی ہی میں بیشتر مسلمان ملکوں کی حکومتوں کو یہ احساس ہو گیا تھا کہ انھیں بین الاقوامی کاروباری شعبے کی ضروریات کے مطابق خود کو ڈھالنا پڑے گا۔ اس کے ساتھ ساتھ انھیں اپنے درمیان موجود نئے شہری حلقوں کی ضروریات کا بھی خیال رکھنا تھا۔ اس اقتصادی، اداراتی اور ڈھانچہ جاتی تبدیلی کے ساتھ چلنے سے ایک نئی قوت ابھر کر سامنے آئی جسے سیاسی اسلام کہا جاتا ہے۔ مراکش سے انڈونیشیا تک مسلمان اسلام کے جھنڈے تلے ایک نئے حلقے کے طور پر اپنی سیاسی تنظیم کر رہے تھے۔ کچھ ملک تو ان نئے سیاسی حقائق کے مطابق خود کو ڈھالنے کے قابل تھے لیکن شاہ کی زیرِ قیادت ایران جیسے بعض ممالک ایسے بھی تھے جنھوں نے کوشش کی کہ تبدیلی کے نئے راستے تو کھولے جائیں لیکن سیاسی نظام میں بنیادی اصلاحات کرنے کی ضرورت کو نظر انداز کیا جائے، جس میں انھیں ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔

70ء کے عشرے کے اواخر اور 80ء کی دہائی میں سیاسی اسلام اپنے عروج پر تھا جب ایران میں اسلامی انقلاب آیا اور پاکستان، سوڈان اور نائجیریا میں اسلمہ ﴿Islamization) کی گئی۔ مصر، مراکش اور تیونس جیسے ممالک کے زیادہ ترقی یافتہ شہری حلقوں میں مقبولیت کی بنا پر سیاسی اسلام کے حامیوں کو عرب دنیا میں بھی نظر انداز کرنا بہت مشکل تھا۔ ایشیا کے مسلمان ملکوں میں بھی صورت حال کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی جہاں پاکستان، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں اسلمہ ﴿Islamization) کا عمل پوری تندہی اور تیزی سے ہو رہا تھا۔ مثال کے طور پر 1980 ء کے عشرے نے دیکھا کہ ملائیشیا کی سیاسی معیشت کی تیزی سے تنظیم ِ نو کی گئی جب ریاست نے سیاسی اسلام کے حامیوں کو پزیرائی بخشی اور انھیں حکومتی مشینری کا حصہ بنایا۔

آج کل ملائشیا اور انڈونیشیا جیسے ممالک اسلامی بنکاری اور فنانس سمیت بہت سے شعبوں میں کامیابیاں حاصل کر رہے ہیں۔ علاوہ ازیں خصوصی طور پر مسلمانوں کے لیے تیار کی جانے والی مصنوعات کی کامیابی حیران کن ہے۔ اگر ہم مسلم ممالک میں تجارتی مراکز ﴿Super Markets) کا چکر لگائیں تو بڑی تعدادمیں ایسی اشیاء نظر آتی ہیں جن پر 'مسلم' کی چھاپ لگی ہے۔ ان میں مسلم کولا مثلاً زم زم یا مکّہ کولا سے لے کر مسلم جینز مثلاً القدس جینز تک بہت سی مصنوعات شامل ہیں جو مسلمانوں کے ذوق اور ترجیحات کو مدِ نظر رکھ کر بنائی گئی ہیں۔

ملائشیا میں ایک کار بھی تیار کی جا رہی ہے جوشائد اپنی قسم کی پہلی 'مسلم کار' ہوگی۔ اس کار میں مکّہ کی طرف اشارہ کرنے والا سمت نما اور قرآن رکھنے کے لیے خصوصی خانہ تیار کیا گیا ہے۔ عوامی تفریح اور پلاسٹک آرٹ جیسے شعبوں میں مقبول مسلم ثقافت اہم کاروبار بن گئی ہے اور ای ایم آئی جیسی بڑی کمپنیاں مسلمان پاپ گروپس کے ساتھ معاہدے کر رہی ہیں۔ تاہم ہمیں یہ یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ جو کچھ بھی ہم آج کی مسلم دنیا میں دیکھ رہے ہیں اسے انقلابی یا بنیاد پرستانہ نہیں کہا جا سکتا۔ اس ضمن میں بہت سے اہم نکات پرزوردینے کی ضرورت ہے۔

اوّل: ہمیں باربار دوسروں کو یہ باور کرانا چاہیے کہ اسلام کوئی ایسا مذہب یا عقائد کا نظام نہیں ہے جو کاروبار کے خلاف ہے۔ اسلام کے اخلاقی اصول کسی کو تجارت کرنے سے نہیں روکتے۔ خود حضرت محمدﷺ کا تعلق ایک کاروباری گھرانے سے تھا۔ اسلام آزادانہ کاروبار، نجی ملکیت اور دولت کے حصول کا دفاع بلکہ اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ دوم: مسلم دنیا میں جو کچھ ہو رہا ہے یہ کوئی انہونی چیز یا نئی اختراع نہیں ہے۔ مسلمان تو صرف کاروباری روایات اور طریقہ کار کو اپنی کمیونٹی کے لیے موزوں بنا رہے ہیں۔

تیسری بات یہ ہے کہ مسلمانوں کے کاروباری شعبے کی ترقی سب کے لیے ایک اچھی خبر ہے۔ یہ سماج کو ترقی دینے، دولت کی پیداوار اور اس کی تقسیم کے ذریعے کے طور پر کام کرتا ہے۔ بلکہ جب مغرب اور مسلمانوں کے درمیان میں تعلقات اتنے اچھے نہ رہیں جتناکہ وہ ہو سکتے تھے تو ایسے میں دونوں کے درمیان میں پُل کا کام بھی دیتا ہے۔ مسلم کولا، جینز یا کاروں کی تیاری اس حقیقت کی نشان دہی کرتی ہے کہ مسلمان ان اشیاء سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جو ایک طویل عرصے سے مغرب کے صنعتی سماج میں تیار ہو رہی تھیں۔

چنانچہ مسلم کامرس کے ابھرنے کو کسی طرح کی رکاوٹ نہیں سمجھناچاہیے بلکہ اس سے دنیا بھر کے کاروباری طبقوں کوایک دوسرے کے قریب آنے اور ایک ایسی صارف منڈی دریافت کرنے، اسے ترقی دینے اور اس میں کام کرنے کے کاروباری امکانات اور مواقع میسر آئیں گے جو اپنے اقتصادی مقام اورموقع سے پوری طرح آگاہ ہے۔ ایک ایسے دور میں جب ذرائع ابلاغ تواتر کے ساتھ مصیبت زدہ معاشروں کی تصاویراور بین الثقافتی جھگڑوں اور تشدد کی داستانوں کی بوچھاڑ کیے ہوئے ہے، مغرب اور مسلم دنیا کے کاروباری منصوبے ثقافتوں کے درمیان میں خلیج کو پاٹنے اور ثقافتی کاروباری منصوبے بنانے جیسا اہم کردار ادا کرسکتے ہیں جو معاشروں کو ایک دوسرے سے دورہٹانے کی بجائے قریب لانے کا باعث بنے گا۔[3]

کینزی معاشیات

[ترمیم]

کینزی معاشیات جون مینارڈ کینز (John Maynard Keynes) کے نظریات پر مشتمل ہے۔ اس نظریہ کے حامل ماہرین قلیل عرصہ (Short run) کی کلیاتی معاشیات پر توجہ مرکوز کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں معاشی متغیرات بالکل لچکدار نہیں ہوتے اور ان کے تغیر میں کچھ رکاوٹیں بھی آسکتی ہیں۔ مثلاً جب قیمتیں بڑھ جائیں تو ان کو کم کرنا مشکل ہوتا ہے۔ اگرچہ قیمت کی کمی کے حالات پیدا ہو جائیں، وہ اس آسانی سے کم نہیں ہوتیں جتنی آسانی سے بڑھتی ہیں۔ اس کے علاوہ یہ لوگ بالکل آزاد معیشت (Free Economy) پر یقین نہیں رکھتے اور ان کے خیال میں بعض صورتیں ایسی پیدا ہو جاتی ہیں جس میں معاشی متغیرات میں مکمل طور پر توازن پیدا نہیں ہوتا اور وہ توازنی کیفیت کے علاوہ کہیں اور اٹکی رہ سکتی ہیں۔ ایسی صورت میں معیشت میں کسی طاقت مثلاً حکومت کی مداخلت ضروری ہو جاتی ہے۔ یہ مداخلت مالیاتی حکمتِ عملی (Fiscal Policy) کے ذریعے سب سے بہتر نتائج دیتی ہے۔ کینزی معاشیات ایک آزاد معیشت یا ایک مکمل طور پر پابند معیشت (Controled economy) دونوں کی جگہ ایک ملی جلی معیشت (Mixed Economy) کا پرچار کرتی ہے جس میں حکومتی ادارے اور نجی شعبہ دونوں ہی اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ کلاسیکی معاشی نظریات کے برعکس یہ لوگ اس بات پر یقین نہیں رکھتے کہ معیشت میں خود بخود مکمل روزگار اور توازن پیدا ہوگا۔ ان نظریات کا منبع کینز کی مشہور کتاب 'نظریہ عمومی' (General theory) ہے۔

مارکسی معاشیات

[ترمیم]

مارکسی معاشیات کی بنیاد کارل مارکس (Karl Marx) کے نظریات پر ہے جو بنیادی طور پر اس کی مشہور کتاب 'سرمایہ' (جرمن میںDas Kapital۔ انگریزی میں The Capital) سے اخذ کیے جاتے ہیں۔ مارکس اقتصادی مسائل کو ایک طبقاتی تفاوت کی نظر سے دیکھتا ہے۔ اس کے خیال میں سرمایہ دارانہ نظام میں سرمایہ (capital) اور محنت (labor) کے درمیان میں دولت اور پیداوار کی منصفانہ تقسیم نہیں ہوتی اور سرمایہ دار مزدور کا استحصال کرتا ہے اور یہی طبقاتی تفاوت کی بنیاد ہے۔ ان خیالات کی بنیاد اس کی نظریہ قدر از محنت (labor theory of value) پر ہے جس کے مطابق اشیاء کی قدریں یا قیمتیں ان پر لگی ہوئی محنت (labor) سے متعین ہوتی ہیں۔ مزدور کی محنت اشیاء میں قدر پیدا کرتی ہے مگر اسے اس کا جائز حصہ نہیں ملتا اور پیداوار و منافع کا بیشر حصہ سرمایہ دار اینٹھ لیتا ہے۔ اس کے مطابق اس کی وجہ سے طبقاتی تفاوت بڑھتا چلا جائے گا اور تصادم ناگزیر ہو جائے گا۔
کارل مارکس پر تنقید کرنے والے کہتے ہیں کہ قیمت کا انحصار طلب (Demand) پر ہوتا ہے اور محنت پر نہیں ہوتا، بلکہ طلب ہی محنت کرنے پر اکساتی ہے۔ اگر کسی کو بھی مزدور کی محنت کی طلب نہ ہو تو محنت فضول ہے۔[2]

نقدی معاشیات

[ترمیم]

اس قسم کی معاشیات کا پرچار کرنے والے لوگ اس بات میں یقین رکھتے ہیں کہ قومی آمدنی بڑھانے جیسے عوامل میں اصل حیثیت زر کی طلب و رسد کی قوتوں پر ہے۔ یہ زر کی رسد میں اتار چڑھاؤ سے معیشت کو اختیار میں لانے کے قائل ہیں۔ ان کے کچھ نظریات کلاسیکی معاشیات سے ملتے ہیں مگر کچھ نظریات بالکل الگ ہیں۔ ان نظریات کے حامل افراد میں ملٹن فریڈمین (Milton Friedman) جیسے لوگ شامل ہیں۔ ان لوگوں میں سے کچھ تو امریکا کی فیڈرل ریزرو سے بھی منسلک رہے ہیں۔ یورپی مرکزی بنک بھی اکثر ان کی تجاویز کردہ حکمت عملی پر عمل کرتا ہے جس میں زر کی رسد کو ھدف بنایا جاتا ہے۔

آسٹروی معاشیات

[ترمیم]

اس قسم کے نظریات سے متعلق لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ بازار (Market) کی اصل قوت وہ لوگ ہیں جو خطرہ مول لے کر نئے کاروبار شروع کرتے ہیں اور یہی لوگ معاشی ترقی کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ اس سے متعلق ماہرینِ معاشیات میں جوزف شمپیٹر (Joseph Schumpeter)، فریڈرک ہایک (Friedrich Hayek)، فریڈرک وون ویسر (Friedrich von Wieser)، آگن وون بوہم باورک (Eugen von Böhm-Bawerk) وغیرہ شامل ہیں۔

معروف ماہرین معاشیات

[ترمیم]

اقتباس

[ترمیم]
  • "جتنا جھوٹ معاشیات میں شامل ہے اتنا کسی اور مضمون میں نہیں۔ اور یہ اتفاقیہ نہیں ہے"
"Economics is haunted by more fallacies than any other study known to man. This is no accident." [4]
Miseducation on matters economic are commonplace today from the commanding heights to the lowest barrios.[5]
  • ماہر معاشیات بہت سی باتیں جانتے اور سمجھتے ہیں۔ لیکن پھر بھی وہ کچھ کنفیوز رہتے ہیں۔ وہ مل کر کبھی کسی مالیاتی کرائسس کی پیشنگوئی نہیں کر سکے۔ اور اس سے بھی بدتر یہ ہے کہ وہ شائید ان سازشوں میں شامل تھے۔
The [economics] profession knows and understands many things. Yet today we are in some disarray. We did not collectively predict the financial crisis and, worse still, we may have contributed to it...[6]
  • فائنینشیئل ٹائمز نے 103 سال بعد جھوٹ کا اعتراف کر لیا۔[7]
  • 1980ء میں غریبوں کی آمدنی میں تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔ جبکہ 2014ء میں امیر ترین لوگوں کی آمدنی میں انتہائی تیزی سے اضافہ ہو رہا تھا۔[8]
  • "حقیقت یہ ہے کہ پوری دنیا کی معیشت مرکزی بینکوں کا ایک کھیل بن چکی ہے"
The truth is the global economy has become one giant central bank shell game[9]
  • معاشیات کا پیشہ اس لحاظ سے عجیب ہے کہ جتنا آپ سمینار روم سے دور جاتے ہیں اتنی ہی باریکیاں کم ہوتی جاتی ہیں خاص طور پر تجارت کے معاملے میں۔۔۔ بیشتر معاشیات دان سچ بولنے کی بجائے گلوبلائزیشن کے حمایتی بن چکے ہیں۔
“The economics profession is strange in that the more you move away from the seminar room to the public domain, the more the nuances get lost, especially on issues of trade.”۔.۔“Rather than speaking truth to power, so to speak, many economists became cheerleaders for globalisation.” Dani Rodrik [10]
  • Globalisation demands the separation of the public and private sectors, not just in the economy, but also in the political and social spheres.۔.۔ but in the age of globalisation the individual also needs protection against threats from other sources than the state. In the age of globalisation the actual financial ‘voting’ power of ordinary citizens is negligible compared to that of large institutional investors. It is not exaggeration to talk of an increasing ‘anonymisation’ of capital — where the actual ‘owners’ of capital often act behind the mask of institutional investors. Anonymisation has become a general feature of advancing globalisation — not just capital, but also the country of origin of products often remains concealed.[11]
  • 1933ء میں کینز نے لکھا تھا کہ پہلی جنگ عظیم کے بعد آنے والا کیپیٹل ازم کا نظام کوئی کامیابی نہیں ہے، یہ دانش مندانہ نہیں ہے، یہ خوبصورت نہیں ہے، یہ منصفانہ نہیں ہے، یہ شفاف نہیں ہے اور اس میں بھلائی نہیں ہے۔ مختصر الفاظ میں ہم اسے پسند نہیں کرتے اور ہمیں اس سے نفرت ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ جہاں تک ممکن ہو استعمال کی اشیاء اپنے ملک میں ہی بنا لینی چاہیئں۔ لیکن 1940 کی دہائی میں کینز اور دوسرے آزاد خیال معیشت دانوں کا دین ایمان پھر چکا تھا۔[10]
  • آزاد تجارت صرف داستان ہے۔ کلاس روم سے باہر اس کا کوئی وجود نہیں ہے۔
Free trade is a myth. It doesn’t exist outside classrooms.[12]

مزید دیکھیے

[ترمیم]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. "Economics+is+the+Science+which+treats+of+the+Laws+which+govern+the+Relations+of+++Exchangeable+Quantities"&source=bl&ots=-x2hg_4fTH&sig=lFPBuHAL2qrMsTRLRDv1Y_CFqB4&hl=en&sa=X&redir_esc=y#v=onepage&q="Economics%20is%20the%20Science%20which%20treats%20of%20the%20Laws%20which%20govern%20the%20Relations%20of%20%20%20Exchangeable%20Quantities"&f=false The Science of Political Economy By Henry George
  2. ^ ا ب THE THEORY AND PRACTICE OF BANKING, 1883
  3. خلیج ٹائمز، 7 دسمبر 2007 ( کامن گراؤنڈ نیوز )
  4. The First Economics Lesson
  5. Who Is Holding Back The Russian Economy?
  6. One Career Economist Exposes The Lies Of Modern Economics
  7. "None Of It Was True": 103 Years Later, The FT Admits It Lied And Colluded With The Bank of England
  8. ہماری شکستہ معیشت- ایک چارٹ میں۔ نیویارک ٹائمز
  9. [1]
  10. ^ ا ب "Globalisation: the rise and fall of an idea that swept the world"۔ theguardian.com 
  11. Big business and economic development : conglomerates and economic groups in developing countries and transition economies under globalisation / edited by Alex E. Fernandez Jilberto, Barbara Hogenboom.
  12. Trade Wars Just Getting Started
  • پروفیسر محمد منظور علی۔ کتاب معاشیات حصہ اول جولائی 1982ءٗ؁ مرکزی کتب خانہ، اردو بازار
  • پروفیسررفیع اللہ شہاب۔ اسلامی ریاست کامالیاتی نظام۔ دسمبر1973؁ء، ادارہ تحقیقات اسلامی اسلام آباد (پاکستان)
  • فیڈرک بینیم معاشیات (زر و بینکاری) ترجمہ عظمت اللہ خان فروری 1965 ؁ء سرسید بک کمپنی اردو بازار کراچی
  • ڈاکٹر زاہد علی: تاریخ فاطمین مصر؛ جلد اول، دوم، 1975ء؁ نفیس اکیڈمی کراچی
  • ڈاکٹر معین الدین: قدیم مشرق مکتبہ فریدی کراچی

بیرونی روابط

[ترمیم]