[go: up one dir, main page]

مندرجات کا رخ کریں

احمد المستنصر باللہ الثانی

آزاد دائرۃ المعارف، ویکیپیڈیا سے
المستنصرباللہ الثانی
خلافت عباسیہ کا 38واں خلیفہ
قاہرہ میں پہلا عباسی خلیفہ
پیشرومستعصم باللہ
جانشینالحاکم بامر اللہ الاول
نسلالحاکم بامر اللہ الاول (ممکنہ)
والدالظاہر بامر اللہ
وفات28 نومبر 1261
مذہباسلام

خلیفہ المستنصر باللہ الثانی کا براہِ راست تعلق بنو عباس سے ہے۔ اُن کی کنیت ابو القاسم، نام احمد بن الظاہر ہے۔ المستنصر باللہ کے والد خلیفۃ الظاہر تھے جو 1225ء تا 1226ء تک خلیفہ رہے۔

امام جلال الدین السیوطی نے تاریخ الخلفاء میں خلیفہ کا نسب یوں لکھا ہے : احمد ابو القاسم ابن الظاہر بامر اللہ ابی نصر محمد بن الناصر لدین اللہ احمد۔[1] المستنصر باللہ الثانی قاہرہ مصر میں عباسیوں کے اڑتیسویں خلیفہ تھے۔ وہ سال 659 ہجری میں قاہرہ آئے جہاں سلطان مصر الملک الظاہر رکن الدین بیبرس البندقداری نے اُن کا اِستقبال کرتے ہوئے دوبارہ عہدہ خلافت پر متمکن کرتے ہوئے اُن کی عوامی و سرکاری بیعت لی۔ المستنصر باللہ الثانی کا ایک بھائی اُن سے قبل بھی خلافت عباسیہ بغداد میں خلیفہ ہوا تھا وہ مستنصر باللہ تھا جو بغداد میں 1226ء سے 1242ء تک خلیفہ کے عہدے پر فائز تھا۔

بغداد میں قید سے رہائی اور مصر آمد

[ترمیم]

صفر 656 ہجری مطابق فروری 1258ء میں جب منگولوں نے بغداد کا محاصرہ کرکے خلافتِ عباسیہ کو تاخت و تاراج کر دیا تو المسنتصر باللہ الثانی کو قید کر دیا گیا تھا۔ یہ حالتِ قید بغداد میں تین سال رہے۔ 659 ہجری مطابق 1261ء میں قید سے رہائی ملی تو اعراب کی ایک جماعت کے ساتھ عراق میں مقیم تھے۔ 24 اکتوبر 1260ء کو مصر میں سلطان الملک الظاہر رکن الدین بیبرس البندقداری تخت نشیں ہوا تو المستنصر باللہ الثانی نے قصدِ خلافت کے لیے مصر کا رخ کیا۔ اِس واسطے وہ اعراب کے دس اُمراء کو ساتھ لیے مصر چلے آئے جن میں امیر ناصر الدین مہنا 8 رجب 659ھ مطابق 7 جون 1261ء کو مصر پہنچا۔ بروز جمعۃ المبارک 11 رجب 659ھ مطابق 10 جون 1261ء کو اِستقبال کے لیے سلطان الظاہر محل سے باہر نکلا اور اُس کے ساتھ وزیر، گواہ اور اِطلاع دینے والے بھی تھے۔ باب النصر سے بڑی شان و شوکت کے ساتھ المستنصر باللہ الثانی کا داخلہ ہوا۔[2]

خلیفہ ہونے کے لیے بیعت

[ترمیم]

خلیفہ المستنصر باللہ الثانی قاہرہ میں دنیائے اسلام کے اڑتیسویں خلیفہ ہونے کی حیثیت سے 13 رجب المرجب 659ھ مطابق 13 جون 1261ء کو خلیفہ مقرر ہوئے۔ بروز پیر 13 رجب المرجب 659 ہجری مطابق 13 جون 1261ء کو سلطان مصر الظاہر رکن الدین بیبرس البندقدرای اور خلیفہ مذکور، قلعہ جبل کے اِیوان میں نشست لگا کر بیٹھے۔ وزراء اور قاضی اپنے اپنے طبقات کے مطابق بیٹھ گئے۔ بیعت کے لیے خلیفہ کے نسب کو حاکم تاج الدین بن الاعز نے ثابت کیا کہ یہ خلیفہ خلیفہ مستنصر باللہ العباسی کا بھائی ہے جس نے بغداد میں مستنصریہ کی بنیاد رکھی تھی اور خلیفہ المستعصم باللہ العباسی کا چچا ہے جنہیں منگولوں نے صفر656 ہجری میں شہید کر دیا تھا۔ خلیفہ المستنصر باللہ الثانی کی بیعتِ خلافت تمام ملکِ مصر میں ہوئی۔ سلطان مصر الملک الظاہر، قاضی اور اُمراء نے بیعت کی۔ بعد ازاں خلیفہ مجلسِ خلافت کے ہمراہ دیارِ مصر چلے اور اُمراء اُن کے ہمراہ آگے آگے اور لوگ اِردگرد موجود تھے۔ 13 رجب المرجب 659ھ مطابق 13 جون 1261ء کو قاہرہ میں خلیفہ گذرے۔ منبروں پر خلیفہ مذکور کا خطبہ دیا گیا، نام کا سکہ ضرب ہوا۔ قاہرہ میں شانِ شایان جشن منایا گیا کیونکہ گذشتہ تین سالوں سے عہدہ خلافت خالی تھا۔[1][2][3]

قاہرہ مصر میں خلیفہ المستنصر باللہ الثانی کا پہلا جمعۃ المبارک

[ترمیم]

17 رجب المرجب 659 ہجری مطابق 17 جون 1261ء کو خلیفہ عوام کے ساتھ سوار ہو کر قلعہ کی جامع مسجد کی جانب آئے۔ منبر پر خطبہ دیا جس میں بنو عباس کی شرف و فضائل کا ذِکر کیا۔ آغازِ خطبہ میں سورۃ الانعام کا ابتدائی حصہ تلاوت کیا اور پھر رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود پڑھا، پھر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی رضا مندی چاہی اور پھر سلطان الظاہر کے لیے دعا کی۔ پھرخلیفہ نے لوگوں کو نماز پڑھائی۔

خلیفہ المستنصر باللہ الثانی کا خلافت سلطان الملک الظاہر رکن الدین بیبرسی البندقداری کے سپرد کرنا

[ترمیم]

4 شعبان المعظم 659 ہجری مطابق 4 جولائی 1261ء کو خلیفہ المستنصر باللہ الثانی، سلطان الملک الظاہر رکن الدین بیبرس البندقداری، وزراء، قضاۃ، اُمراء اور اَرباب حل و عقد قاہرہ سے باہر ایک عظیم خیمے میں نشت لگا کر براجمان ہوئے۔ خلیفہ نے سلطان کو سیاہ خلعت پہنائی اور اُس کی گردن میں طوق ڈالا اور اُس کے پاوں میں بیڑی ڈالی۔ طوق اور بیڑی سونے کی تھی۔ کاتب فخر الدین ابراہیم بن لقمان منبر پر چڑھا اور اُس نے لوگوں کو سلطان کا حکم سنایا اور یہ اُس کا اپنا وضع کردہ اور اپنی تحریر میں لکھا ہوا تھا۔ پھر بعد میں سلطان اِس شان کے ساتھ قاہرہ داخل ہوا کہ بیڑی اُس کے پاوں میں تھی اور طوق اُس کی گردن میں تھا، وزراء اُس کے آگے آگے چل رہے تھے اور سلطان کے سر پر حکم نامہ تھا اور اُمرائے حکومت سوائے وزیر اعظم کے، سبھی پیدل چل رہے تھے۔[1][2]

سلطان قاہرہ الملک الظاہر اور خلیفہ المستنصر باللہ الثانی کی شام اور بغداد کو روانگی

[ترمیم]

عباسی خلافت کے قیامِ نَو کے بعد خلیفہ المستنصر باللہ الثانی نے بغداد کو تاتاریوں کے ہاتھوں سے واگزار کروانا چاہا جس کے لیے انھوں نے ماہِ شعبان المعظم 659 ہجری مطابق جولائی 1261ء میں سلطان قاہرہ الملک الظاہر رکن الدین بیبرس البندقدرای سے مطالبہ کیا کہ وہ انھیں بغداد بھجدا دے۔ اِس واسطے سلطان قاہرہ نے ایک عظیم فوج تیار و منظم کی اور اُن کے ہمراہ ہر اُس شے کا بندوبست کیا جو ملوک کے لیے ضرروی ہوتا ہے، پھر سلطان اُن کے ساتھ دمشق گیا اور سلطان کے مصر سے شام جانے کا سبب یہ تھا کہ ترکی حلب پر قبضہ ہو چکا تھا اور سلطان نے امیر علم الدین حلبی کو جو بنو دمشق پر متغلب ہو چکا تھا، حلب کی طرف بھیجا اور اُس نے حلب کو قابضین سے چھڑوا لیا اور وہاں قبضہ کر لیا بعد ازاں سلطان الملک الظاہر نے اُسے اپنا نائب مقرر کیا۔ امیر علم الدین نے ترکی کو وہاں سے بھاگ نکالا۔ سلطان الملک الظاہر نے عز الدین ایدمر الحلبی کو مصر پر اپنا نائب مقرر کیا تھا اور اِنتظامِ مملکت وزیر بہاو الدین بن الحناء کے سپرد کیا تھا اور اُس کے بیٹے فخر الدین کو بھی اُس کے ہمراہ وزیر مقرر کیا تھا۔ افواج و عساکر کا اِنتظام امیر بدر الدین بعلبک الخازندار کے سپرد کیا تھا۔ بروز پیر 7 ذیقعد 659 ہجری مطابق 3 اکتوبر 1261ء کو سلطان اور خلیفہ اپنی افواج کے ہمراہ دمشق میں داخل ہوئے۔ دونوں نے جامع دمشق میں بروز جمعۃ المبارک 11 ذیقعد 659 ہجری مطابق 7 اکتوبر 1261ء کو نمازِ جمعہ ادا کی۔ بعد ازاں خلیفہ باب البرید سے اور سلطان باب الزیارۃ سے داخل ہوئے اور سلطان نے خلیفہ کو بغداد روانہ کیا اور اِن کے ہمراہ شاہِ موصل کے بیٹے بھی تھے۔ اِس روانگی میں سلطان قاہرہ الملک الظاہر نے اِس قدر دولت خرچ کی ایک کروڑ دینار کا خالص سونا فوج کے نوجوانوں کے لیے صرف کر دیا۔

خلیفہ کی شام سے بغداد روانگی اور شہادت

[ترمیم]

ماہِ ذو الحجہ 659 ہجری مطابق نومبر 1261ء کو خلیفہ المستنصر باللہ الثانی شام سے عراق روانہ ہوئے اور موصل، سنجار اور الجزیرہ کے حکمرانوں کی مدد سے تکریت اور حدیثہ کے مقام پر قبضہ کر لیا، اِس کے بعد وہ بغداد روانہ ہوئے۔ بغداد روانگی میں ہی تاتاریوں سے مقابلہ ہوا۔ مصری فوج کو شکست ہوئی اور خلیفہ خود قتل ہو گئے۔ ابن کثیر کے بیان کے مطابق بروز پیر 3 محرم الحرام 660 ہجری مطابق 28 نومبر 1261ء کو بغداد میں بنو عباسی کے اڑتیسویں خلیفہ بھی شہید ہو گیا جو سقوطِ بغداد کے بعد ایک بڑا سانحہ تھا۔[4][5]

حوالہ جات

[ترمیم]
  1. ^ ا ب پ جلال الدین الیسوطی: تاریخ الخلفاء، صفحہ723، من ذکر خلافۃ المستنصر باللہ، 659ھ - 660ھ۔ طبع 1424ہجری / 2013ء
  2. ^ ا ب پ ابن کثیر الدمشقی: البدایۃ والنہایۃ، ج 13 صفحہ 277 ذکر تحت سال 659 ہجری۔
  3. الیافعی الیمنی المکی : مراۃ الجنان و عبرۃ الیقظان فی معرفۃ ما یعتبر من حوادث الزمان، ج 4 ص 114 ذکر تحت سنۃ 659 ہجری۔
  4. شاہ معین الدین ندوی: تاریخ اِسلام، ج 2 ص 616 تذکرہ ابو القاسم احمد بن الظاہر بامراللہ الملقب بہ مستنصر باللہ الثانی العباسی۔
  5. ابن کثیر الدمشقی: البدایۃ والنہایۃ، ج 13 ص 279، ذکر تحت سنۃ حوادث 660 ہجری۔